جانور

( جانْوَر )
{ جان + وَر }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ہی ماخوذ ہے اور اصلی حالت میں ہی بطور اسم اور گاہے بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٨١٦ء میں "دیوان ناسخ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع استثنائی   : جانْوَراں [جان + وَراں]
جمع غیر ندائی   : جانْوَروں [جان + وَروں (واؤ مجہول)]
١ - [ مجازا ]  اجنبی شخص۔
"یہ کون جانور ہے، انہوں نے سر جھکا کر جواب دیا میرے والد ہیں۔"      ( ١٩٣٧ء، اشارات جوش، ٩٠ )
٢ - احمق، بے عقل، جاہل، بے وقوف، ناسمجھ۔ (پلیٹس؛ جامع اللغات؛ فرہنگ آصفیہ)
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع استثنائی   : جانْوَراں [جان + وَراں]
جمع غیر ندائی   : جانْوَروں [جان + وَروں (واؤ مجہول)]
١ - ذی روح، ذی حیات (انسان یا حیوان)۔
"پانی میں ایسے چھوٹے چھوٹے جانور تیر رہے ہیں . جو محض آنکھ سے نظر آنے والی چیزوں کے مقابلے میں ہزار گنا چھوٹے تھے۔"      ( ١٩٧٠ء، زعمائے سائنس (ترجمہ)، ١٠٥ )
٢ - حیوان مطلق (چرند، پرند، درندہ وغیرہ)۔
 بارش کہاں ہے آہ جو ہے کھیتیوں کی جان پھرتے ہیں جانور بھی نکالے ہوئے زبان      ( ١٩٢٩ء، مطلع انوار، ١٢٧ )