حیوان

( حَیوان )
{ حَے (ی لین) + وان }
( عربی )

تفصیلات


حیو  حَیوان

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٦٤ء کو حسن شوقی کے "دیوان" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : حَیوانات [حَے (ی لین) + وا + نات]
جمع غیر ندائی   : حَیوانوں [حَے (ی لین) + وا + نوں (واؤ مجہول)]
١ - جاندار، انسان کے علاوہ وہ جان دار مخلوق جس میں قوۃ حس اور ارادی حرکت ہو، جانور۔
 پاپ ہے نزدیک میرے ہتھیا حیوان کی حلق انسان پر چھری لیکن چلا لیتا ہوں میں      ( ١٩٨٢ء، ط ظ، ٨١ )
٢ - وہ روایتی پانی جس کی نسبت کہا گیا ہے اس کا ایک قطرہ پینے کے بعد انسان امر ہو جاتاہے (یہ پانی چشمۂ ظلمات میں بتایا گیا ہے، کہتے ہیں کہ حضرت الیاس اور حضرت خضر نے یہ پانی پی کر عمر ابدحاصل کی، لیکن سکندر اس کی تلاش میں بحر ظلمات تک گیا تو بے نیل حرام، واپس آیا)، آب بقاء آب حیواں۔
 خضر کی زیست کو حیواں دیا الیاس کو بحر ڈوب مرنے کو ہمیں چاہ زنخداں چھوڑا      ( ١٨٩٧ء، کلیات راقم، ٣٧ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جمع   : حیوانات [حَے (ی لین) + وا + نات]
جمع غیر ندائی   : حَیوانوں [حَے (ی لین) + وا + نوں (و مجہول)]
١ - وحشی، تہذیب وتمدن اور آداب سے عاری، نادان۔
 دیدنی ہے یہ نئی تہذیب کی افسوں گرِی ہند حیواں بن گیا، انگلینڈ انساں ہو گیا      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ١٥ )