ڈنگر

( ڈَنْگَر )
{ ڈَن (ن غنہ) + گر }
( پراکرت )

تفصیلات


پراکرت زبان سے ماخوذ اسم 'ڈانگر' کی تخفیف ہے جو اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "بیاض مراثی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : ڈَنْگَروں [ڈَن (ن مغنونہ) + گَروں (و مجہول)]
١ - مویشی، چوپائے۔
"جس ڈنگر پر ہاتھ پھیر دیا سمجھ لے اپنا ہو گیا۔"      ( ١٩٨٦ء، جانگلوس، ٢١ )
٢ - [ مجازا ]  وحشی، جنگلی، غیر مہذب۔
 وہ جوش جنوں نے زور ہوئے انسان بھی ڈنگر ڈھور ہوئے بچوں کا قتل جوگی بوڑھوں کا ہے خوں ہبا جوگی      ( ١٩٣٧ء، نغمہ فردوس، ٣٣:١ )
٣ - [ مجازا ]  جاہل، گنوار، ناسمجھ۔
"تم ایک ڈنگر سے بھی زیادہ بیوقوف ہو۔"      ( ١٩٨٢ء، میری داستانِ حیات، ٣٨ )
  • A servant
  • slave;  a rogue
  • cheat;  a fat man.