دخل

( دَخْل )
{ دَخْل }
( عربی )

تفصیلات


دخل  دَخْل

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مجرد کے باب سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٨٢ء کو "کلمۃ الحقائق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - داخلہ، گذر، اندر آنا۔
"عوامی امور میں عوام کو دخل حاصل ہو گیا ہے"      ( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٦٥٧:٣ )
٢ - چیزوں کی آمد، آمدنی، پیداوار۔
"مسرف وہ ہے جو خرچ میں زیادتی کرے اور دخل میں کمی"      ( ١٩٣١ء، اخلاق نقوما جس (ترجمہ)، ٥٧ )
٣ - قبضہ، حکومت، اختیار۔
"اس شہر پر اسی دن دخل ہو گیا"      ( ١٩٣٠ء، تیمور (ترجمہ)، ٣٠٤ )
٤ - واقفیت، شدید؛ دست رس، مہارت۔
"سب نے بالاتفاق کیا کہ یہ کلام کسی بڑے استاد کامل کا ہے جس کو بلا شبہ اس فن میں دخل نام ہے"      ( ١٩٥٨ء، شاد کی کہانی شاد کی زبانی، ٧٤ )
٥ - پہنچ، رسائی، بادیابی؛عمل؛ اثر۔
"علم ہئیت میں بھی انہیں (مولوی چراغ علی مرحوم) خوب دخل تھا"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٣٥ )
٦ - دست اندازی؛ مزاحمت؛ مداخلت۔
 مشاہدات میں وہم ذلیل کو کیا دخل یقین اجر میں صبر جمیل کو کیا دخل      ( ١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نظیر، ٢٧٦ )
٧ - مجال، طاقت۔
 ہر حال میں راضی برضا ہم ہیں کہ حسرت کیا دخل جو ان پر کوئی الزام لگائے      ( ١٩٢٤ء، کلیات حسرت، ٢٣٤ )
٨ - امکان، احتمال۔
"بظاہر یہ ایک اچھنبھا نظر آتا ہے کہ پانچ ہزار صفحے ایم اسلم صاحب نے صرف دو سال میں لکھے اور ان کی قدر دانی سے ثابت ہے کہ ان میں بھرتی کو کوئی دخل نہیں ہے"      ( ١٩٦٢ء، گنجینۂ گوہر، ١٩٨ )
٩ - شریک کار ہونا، معاون ہونا، شرکت کرنا۔
"رستم ثانی نے مکرر کہا کہ تم لوگوں کو اس میں کیا دخل ہے"      ( ١٨٩٦ء، لعل نامہ، ٧٢:١ )
  • Entrance
  • ingress
  • admission
  • access;  entering (upon)
  • taking possession (of)
  • possession
  • occupation
  • occupancy;  making way or progress (in a study)
  • progress
  • proficiency
  • knowledge;  reach
  • grasp
  • scope
  • comprehension;  possibility;  capacity
  • competency;  influence
  • power authority
  • jurisdiction;  intrusion
  • interference
  • meddling
  • disturbance
  • molestation;  income
  • receipt
  • revenue
  • profit
  • produce
  • proceeds.