قبضہ

( قَبْضَہ )
{ قَب + ضَہ }
( عربی )

تفصیلات


قبض  قبض  قَبْضَہ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں اصلی حالت کے ساتھ داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٦٥ء کو "علی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : قَبْضے [قَب + ضے]
جمع   : قَبْضے [قَب + ضے]
جمع غیر ندائی   : قَبْضوں [قَب + ضوں (و مجہول)]
١ - دخل، تصرف، ملکیت۔
"قائداعظم نے . اپنے مکان کا قبضہ حاصل کیا۔"      ( ١٩٨٧ء، قائداعظم کے مہ و سال، ١٠٠ )
٢ - قابو، اختیار۔
"ورقے کے دونوں نصف حصے متحرک ہوتے ہیں اور یہ میان رگ کو قبضہ کی طرح . مل جاتے ہیں۔"      ( ١٩٨٠ء، مبادی نباتیات، ٧٤٤:٢ )
٣ - مٹھ، دستہ (تلوار، خنجر یا کمان وغیرہ کا)۔
"ذوالفقار بدر میں بات آئی تھی تلوار کا قبضہ چاندی کا تھا۔"      ( ١٩١٢ء، سیرۃ النبیۖ، ١٩٠:٢ )
٤ - لوہے یا پیتل کے بنے ہوئے جوڑ جو کواڑوں کو چوکھٹ سے اور صندوق کے دوحصّوں کو ملا ہوا رکھنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
"یہ دنیا ایک ایسے صندوق کے مشابہہ ہو گی جس میں قبضے نہیں۔"      ( ١٩٣٧ء، فلسفۂ نتائجیت، ١٣٣ )
٥ - بازو کی مچھلی (مچھلیاں)۔
"پاؤں میں انگوری بیل کی سلیم شاہی ٹھمک چال اپنے ڈنڑ قبضوں کو دیکھتے چلے آرہے ہیں۔"      ( ١٩٦٢ء، ساقی، کراچی، جولائی، ٤٧ )
٦ - ایک مشت، مُٹھی بھر۔
"بعد اس کے ایک قبضہ خاک سفید پاک موضع قبر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اٹھا کر اسی نور سے ملایا۔"      ( ١٨٤٥ء، احوال الانبیا، ١٦:١ )
٧ - [ قلم سازی ]  فاؤنٹین (قلم) کا منہ جس میں پتی (زبان قلم) لگائی جاتی ہے۔" (ماخوذ: اصطلاحات پیشہ وراں، 182:4)
  • Grasp
  • gripe (of the hand);  power;  possession;  holding
  • tenure;  a hilt (of a sword);  a hinge;  the upper arm