احتمال

( اِحْتِمال )
{ اِح + تِمال (کسرہ ت مجہول) }
( عربی )

تفصیلات


حمل  اِحْتِمال

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب افتعال سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧١٨ء کو "دیوان آبرو" کے قلمی نسخے میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم حاصل مصدر ( مذکر - واحد )
جمع   : اِحْتِمالات [اِح + تِما + لات]
جمع غیر ندائی   : اِحْتِمالوں [اِح + تِما + لوں (و مجہول)]
١ - امکان، گنجائش، ممکن یا متوقع ہونے کی صورت۔
"جواز میں دونوں احتمال برابر ہیں۔"      ( ١٩٠٦ء، الکلام، ٥٠:٢ )
٢ - شک، شبہ، گمان۔
 بنائیں کیاریاں اس میں لگائے اس میں درخت تب اس زمیں پر جنت کا احتمال ہوا    ( ١٩٢٧ء، شاد، سروش ہستی، ٨ )
٣ - اندیشہ۔
"اس کے افعال سے ہلاکت واقع ہونے کا احتمال ہے۔"    ( ١٩٤٤ء نواب صاحب کی ڈائری، ١٣٧ )
٤ - فرضی، خیالی، وہمی یا قیاسی بات۔
 ایسی دنیا میں کیوں رہوں مضطر جس کو سب احتمال کہتے ہیں      ( ١٩١١ء، نذر خدا، ٩٣ )
٥ - [ منطق ]  امکانی صورت، ممکنہ شق یا پہلو۔
"انسان کی فطرت کے متعلق چار احتمال پیدا ہو سکتے ہیں۔"      ( ١٩٠٤ء، مقالات شبلی، ٦٣:١ )
٦ - باربرداری، برداشت، بوجھ کو اٹھانا یا برداشت کرنا۔
 تجھ امانت کے بار کا مجکوں قوت احتمال دے یارب      ( ١٨٠٩ء، شاہ کمال، دیوان، ٥٥ )
١ - اِحْتِمال رکھنا
ممکن یا قابل یقین ہونا۔ مجھ سے ہو تیرے جور کا شکوہ یہ بھلا احتمال رکھتا ہے      ( ١٧٩٨ء، بیدار، دیوان، ٩٢ )
٢ - اِحتمال کرنا
خیال آرائی کرنا، نکتے پیدا کرنا۔ منظور ہوتی ہم کو حجت جو اس دہن میں اندیشے کو نہ سوجھیں وہ احتمال کرتے      ( ١٨٤٦ء، آتش، کلیات، ٢٤٧ )
  • supposition
  • hypothesis;  admissibleness
  • allowableness;  probability;  likelihood;  presumption;  uncertainty
  • doubt;  attributing;  imputation