شعاع

( شُعاع )
{ شُعاع }
( عربی )

تفصیلات


شعع  شُعاع

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے۔ اور سب سے پہلے ١٥٨٢ء کو "کلمۃ الحقائق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : شُعاعیں [شُعا + عیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : شُعاعوں [شُعا + عوں (و مجہول)]
١ - (سورج کی) روشنی، کرن، تجلّی۔
"سورج کی تیز شعاعیں جہاز پر پڑ رہی تھیں"      ( ١٩٨١ء، قطب نما، ٩٤ )
٢ - کسی چیز کی چمک کا انعکاس، آب و تاب، چمک دمک۔
"آنکھوں کی بصارت ان کی اپنی شعاعوں کے چیزوں پر منعکس ہونے سے حاصل ہوتی ہے"      ( ١٩٤٧ء، جراحیاتِ زہراوی، ١ )
٣ - [ مجازا ]  فیضان، روشنی۔
 بے تب و تاب شعاع آگہی عشق کہیے جس کو وہ شعلہ بھی کیا      ( ١٩٦٧ء، دریا آخر دریا ہے، ١١٠ )
٤ - برقی رو یا ایٹمی طاقت جو دھاتوں کو کاٹنے کے لیے استعمال ہو۔
"اگر دوہری آئن شدہ شعاعوں کو زیر استعمال لایا جارہا ہو تو ایٹمی ماس میں سے نیکلئس کا صحیح ماس نکالنے کے لیے الیکٹرانوں کے ماس کو منہا کرنے کی ضرورت ہے"      ( ١٩٧٣ء، نکیائی توانائی، ٤٤ )
٥ - تاب کاری یا برقی رو جس سے انتہائی مہلک زخموں کو خشک یا مندمل کیا جاتا ہے۔
"مرضِ سرطان میں مقامِ مالوف کو شعاعوں سے جلا دینے کا طریقہ آج بھی آخری علاج سمجھا جاتا ہے"      ( ١٩٤٧ء، جراحیات زہراوی، ٤ )
٦ - [ موسیقی ]  ستار یا سارنگی کی طربوں کی گونج یا جھنکار جوتاروں کے چھیڑنے سے پیدا ہو۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 162:4)
  • the rays or beams of the sun
  • sunbeam
  • sunshine
  • radiance
  • light
  • splendour
  • lustre