سرا

( سِرا )
{ سِرا }
( پراکرت )

تفصیلات


پراکرت زبان میں اسم 'سر' کے ساتھ 'ا' بطور 'لاحقۂ تکبیر' لگانے سے اسم 'سرا' بنا۔ اردو میں پراکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء کو "پرت نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : سِرے [سِرے]
جمع   : سِرے [سِرے]
جمع غیر ندائی   : سِروں [سِروں (و مجہول)]
١ - کسی چیز کے شروع یا آخر کا کنارہ۔
"یہ تو وہ بھول بھلیاں ہیں جہاں ڈوری کا سرا لے کر چلو تو جبھی بھٹکنے سے بچ سکتے ہو۔"      ( ١٩٨٣ء، تخلیق اور لاشعوری محرکات، ١٠٨ )
٢ - آغاز، ابتدا۔
"اردو تنقید میں اس قسم کی بحثیں "تاریک گلی" بن کر رہ گئی ہیں جس کا روشنی کی طرف سرا مضمون کے اختتام پر بھی نہیں نکلتا۔"      ( ١٩٧٥ء، توازن، ٢٢٤ )
٣ - قربت، نزدیکی، آمد۔
"عید کا جو سرا ہے تو کوئی درزی بھی ہاتھ نہیں دھرتا"      ( ١٨٧٥ء، انشائے ہادی انسا، ١١٢ )
٤ - اوپر کا حصہ، چھت۔
"ہوا نے سرا اس مکان کا اٹھا کے دریا میں ڈال دیا"      ( ١٨٤٥ء، احوال الانبیا، ٢٠٩:١ )
٥ - حصہ، جگہ۔
"اس کا خیال رکھنا بھی مناسب ہو گا کہ اس سرے کا گوبر دھو دیا جائے"      ( ١٩٤٧ء، انگور، ٧٣ )
٦ - درجہ، طبقۂ انتہا۔
"پرلے سرے کی بے وقوفی ہے اولاد کو اپنے کردار ناسزا کی بری مثالیں دکھانا اور ان سے یہ توقع رکھنا کہ یہ لوگ بڑے ہو کر زبانی پند یا کتابی نصیحت پر کار بند ہو کر صالح اور نیک وضع ہو گے۔"      ( ١٨٧٧ء، توبۃ النصوح، ٣ )
  • head
  • top
  • point
  • end;  extremity
  • tip;  beginning;  head piece or foot-piece (of a bed)