شق

( شَقّ )
{ شَق }
( عربی )

تفصیلات


شقق  شَقّ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں بعینہ داخل ہوا اور بطور صفت ہنر بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٥٧ء کو "مثنوی مصباح المجالس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - شگاف، دراڑ۔
"ہم بھاری ڈھلائی کے سامان کا معائنہ کر سکتے ہیں تاکہ یہ اطمینان ہو جائے کہ ان کے اندر کسی قسم کاشق یا ٹرخ یا سوراخ نہیں ہے۔"      ( ١٩٦٧ء، برقیات، ٨٤ )
٢ - [ طب ]  ایسا مرض جس میں اعصاب و عروق کی ساخت میں فرق آجاتا ہے اور رگیں پٹھے لمبائی میں پھٹ جاتے ہیں۔
"پٹھوں اور رگوں (اعصاب و عروق) کا تفرق اتصال . اگر ان کے طول میں ہو تو اسے شق کہتے ہیں۔"      ( ١٩١٦ء، افادۂ کبیر مجمل، ١٣٨ )
٣ - کرتے یا قمیض وغیرہ کا گربیان، کرتے وغیرہ کا آگے سے کھلا ہوا حصہ، گربیان۔
"کرتوں کے گریبان کی دو صورتیں معروف و مشہور ہیں ایک آجکل عام طور پر مروج ہے کہ گریبان کا شق سینہ پر رہتا ہے۔"    ( ١٩٦٠ء، کشکول، ٢٧ )
٤ - کرتے، قمیض، شیروانی، وغیرہ کے اطراف کا کھلا ہوا حصہ، چاک۔
"عرب کے کرتے طویل نصف ساق تک ہوتے تھے اور ان میں دائیں بائیں شق (چانپ) بھی نہیں ہوتی تھی۔"    ( ١٩٦٠ء، کشکول، ٢٨ )
صفت ذاتی
١ - شگاف دار، پھٹا ہوا، شگاف پڑا ہوا۔
"بیل . جن کے کھروں کی دمک سے زمین کا کلیجہ شق ہو کر ارضی خزانوں کے دہانے کھل جایا کرتے تھے۔"      ( ١٩٨٦ء، جوالامکھ، ٢٤١ )
  • splitting
  • cleaving
  • tearing;  a split
  • rent
  • crack
  • fissure
  • cleft;  the day break
  • dawn of day