شگاف

( شِگاف )
{ شِگاف }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اردو میں اصل ساخت اور مفہوم کے ساتھ من و عن داخل ہوا اور بطور اسم نیز بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیاتِ قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : شِگافوں [شِگا + فوں (و مجہول)]
١ - درز، دراڑ، جھری، دو چیزوں کا درمیانی تنگ فاصلہ۔
"تین چار فیٹ لمبے چوڑے شگاف یا نقب میں سے جو کچھ بھی کہیے رسیوں میں بندھی ہوئی ٹوکری اوپر آجاتی۔"      ( ١٩٨٦ء، جوالہ مُکھ، ١٧١ )
٢ - چیرا (جو زخم کو صاف کرنے یا خون نکالنے کے لیے دیا جائے) نشتر لگانے کا عمل۔
"درد کی جگہ کافی چوڑا شگاف دو۔"      ( ١٩٤٧ء، جراحیاتِ زہراوی، ٧ )
٣ - زخم۔
 اِک عمر سے زہر پی رہا ہوں اے دوست سینے کے شگاف سی رہا ہوں اے دوست      ( ١٩٤٨ء، سرودو خروش، ٧ )
٤ - چراؤ جو قلم میں دیتے ہیں، وہ خط جو قلم میں ڈالتے ہیں۔
 تجھ بن ہے میرا حال یہ وعدہ خلاف تنگ لکھوں جو خط تو ہووے قلم کا شگاف تنگ      ( ١٨٥٤ء، کلیاتِ ظفر، ٦١:٣ )
٥ - [ کنایۃ ]  خامی، نقص، کمی۔
"اپنے موضوع کے روزنوں اور شگافوں کو زندہ تمثالوں سے آباد کرکے، اس کی حسب دل خواہ تلافی کر دی۔"      ( ١٩٦٨ء، مغربی شعریات، ٧١ )
٦ - مانگ، سر کے بالوں کی بالکل وسط یا قدرے ہٹ کر آڑی مانگ کے ذریعہ تقسیم۔
"زلفوں میں شگاف کی طرف، شگاف رہتا جس کو مانگ کہتے ہیں۔"    ( ١٨٩٠ء، تذکرۃ الکرام، ٦٣ )
٧ - کنگھا یا کنگھی کے دندانوں کا فاصلہ۔
 شگاف کنگھی میں بیجا نہیں بناتے ہیں تتار رشک سے بالوں پہ تار تار ہوا    ( ١٨٦١ء، کلیاتِ اختر، ١٣٦ )
٨ - [ خیاطی ]  مشین کی سوئی کے گرد ایک گول کانٹا جس میں تاگہ گزار کر سوئی میں ڈالا جاتا ہے۔
"دھاگے کو شگاف میں ڈالیے اسپرنگ کے نیچے سے گزار کر آخر میں سوراخ سے نکال لیجے۔"      ( سنگر زگ زیگ مشین کی ہدایات، ١٤٧ )
٩ - قطار میں کھڑے ہونے والوں کے درمیان فاصلہ، خالی جگہ، دوری۔
"نہ چھوڑو صفوں میں شگاف کو شیطان کے لیے۔"      ( ١٩٥٦ء، مشکوٰۃ شریف (ترجمہ)، ٢٤٤:١ )
١٠ - [ کیمیا ]  انشقاق، انفلاق، شورہ، نمک وغیرہ یا کسی الکلی کا بیچ سے دو ٹکڑے ہونا، بال پڑنا۔
"جب کسی قسم پر بیرونی دباؤ ڈالا جاتا ہے تو یہ ٹوٹ کر اصل قلم کے مشابہ شکلوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔"      ( ١٩٨٤ء، کیمیا، ٢٠٥ )
صفت ذاتی
١ - شگاف دیا ہوا، پھٹا ہوا، زخمی۔
 اس وقت تھی یہ مشکلِ سرِ سرور اُمَم ماتھا شگاف عارض پرُ نور پر ورم      ( ١٩١٢ء، اوج (نوراللغات) )