سروش

( سَروش )
{ سَروش (واؤ مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٤١ء کو شاکر ناجی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : سَروشوں [سَرو (واؤ مجہول) + شوں (و مجہول)]
١ - وحی لانے والا فرشتہ، جبرئیل علیہ السلام، فرشتہ، غیبی۔
"اندیشہ ہوا کہ اپنے دل کی دھڑکنوں پر تو نوائے سروش کا گمان نہیں ہو رہا۔"      ( ١٩٨٧ء، اک محشر خیال، ٧٦ )
٢ - [ مجازا ]  مژدہ، خوش خبری۔
 میں حرف سروش ہوں خدا کی آواز لکھتا ہوں سلام احمد مختار کے نام      ( ١٩٦٧ء، لحن صریر، ١٠٤ )
٣ - سترہویں تاریخ کو سروش کہتے ہیں اور سروش اس فرشتہ کا نام ہے جو شب کا رقیب ہے۔ (عجائب المخلوقات (ترجمہ)، 127)
٤ - کشف و الہام۔
 صاحب ساز کو لازم ہے کہ ہے کہ غافل نہ رہے گا ہے گا ہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش      ( ١٩٣٥ء، بال جبریل، ١٠٨ )
  • a voice from heaven;  an angel;  the angel Gabriel;  the seventeenth day of every solar month