آنٹ

( آنْٹ )
{ آنْٹ (ن مغنونہ) }
( ہندی )

تفصیلات


یہ لفظ ہندی زبان سے ماخوذ ہے۔ اردو میں اپنی اصلی حالت اور معنی میں ہی مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٧٨٠ء میں سودا کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : آنْٹیں [آں + ٹیں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : آنْٹوں [آں + ٹوں (واؤ مجہول)]
١ - گرہ، گانْٹھ، گتھی۔
"دیکھیے میرے انگوٹھے اور انگلی میں یہ آنٹ اب تک موجود ہے۔"    ( ١٩٠٨ء، عیاروں کا عیار، ١٤٤ )
٢ - البیٹ، پیچ، وہ کنارہ جو بندش کے وقت اڑسا جاتا ہے۔
"دھوتی کی آنٹ کھل گئی۔"    ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ١٤٤:١ )
٣ - باڑ کی بندش کا پھندا۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 91:1)
٤ - کدورت، دشمنی، لاگ ڈانٹ، کپٹ، حسد۔
"پھر پوچھا "اس سے کسی اہیر کی آنٹ نہیں ہے"? معلوم ہوا اسی کے چچیرے بھائی مگھوا سے اس سے آج کل خوب چلی ہوئی ہے۔"      ( ١٩٥٨ء، میلہ گھومنی، علی عباس حسینی، ٣٣ )
٥ - سونے چاندی کا کھرا پن پرکھنے کے لیے تپانے سے پہلے ریتی کی رگڑ یا گھسّا۔ (پلیٹس، مہذب اللغات، 19:2)
٦ - [ قفل سازی ]  قفل کے منہ کے ڈھکنے کی روک کو بنی ہوئی چولیں (کھانچے) جس میں ڈھکنے کی کوزیں اٹکی رہتی ہیں اور ڈھکنا اوپر نیچے سرکانے میں اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 1:7)
١ - آنٹ پڑنا
دلوں میں فرق آنا، لاگ ڈانٹ ہونا، دشمنی ہونا۔ (مخزن المحاورات، ٦٣)
٢ - آنٹ چڑھنا
ہاتھ لگنا، قابو میں ہونا، انٹی میں آنا۔ ٹھگ نہ تنہا چڑھے ہیں اس کی آنٹ مل رہی ہے اچکوں سے بھی سانٹ      ( ١٧٨٠ء، سودا، کلیات، ٣٧٨:١ )
  • Twist
  • turn
  • fold