آنٹی

( آنْٹی )
{ آں + ٹی }
( ہندی )

تفصیلات


آنٹ  آنْٹی

ہندی زبان کے اصل لفظ 'آنٹ' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ تانیث لگانے سے 'آنٹی' بنا اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٦٥ء میں نصرتی کے "علی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : آنْٹیاں [آں + ٹیاں]
جمع غیر ندائی   : آنْٹیوں [آں + ٹیوں (واؤ مجہول)]
١ - گچھّا، لچھّا۔
"دکانوں پر آنٹیوں سہروں کی بہتات ہوتی ہے۔"      ( ١٩٧٠ء، قیصری بیگم(اردو نامہ، کراچی، شمارہ ٣٥، ٧٢) )
٢ - گرہ، دھوتی کا بل، گرہ یا لپیٹ، نیفے کی لپیٹ۔
"شاہ صاحب نے وہ روپے لے کر تو اپنی آنٹی میں لگائے۔"      ( ١٩٢٨ء، باقر علی، کا ناباتی، ٢٧ )
٣ - پھندا جس میں کوئی چیز اٹکا یا الجھا کر اٹھائی جائے۔
"رسی کی آنٹی پاؤں میں لگا جھٹ سے درخت پر چڑھ گیا۔"    ( ١٨٦٨ء، منتخب الحکایات، ٧٧ )
٤ - کشتی میں ٹانگ کا ایک داؤ جس سے حریف کو الجھا کر گرا دیتے ہیں۔ (پلیٹس)
٥ - جیب، پاکٹ۔
"میں تو کچھ نہ کچھ آنٹی میں اڑائے رکھتا ہوں۔"      ( ١٨٩٥ء، فرہنگ آصفیہ، ٢٤٣:١ )
٦ - لکڑیوں کا گٹھا، گھاس کا بوجھا، بنڈل، مٹھا۔ (فرہنگ آصفیہ، 243:1)
٧ - کدورت۔
 موے پیچھے پدر کے ملک بانٹی کہ تا نکلیں دلوں میں سب کی آنٹی      ( ١٧٥٦ء، پندنامہ (علی) (دکنی اردو کی لغت، ٨) )
  • پَھنْدَا
  • بَلْ
  • عَنَادْ
١ - آنٹی کرنا
پھانسنا، الجھانا۔ ہر یک بیل تے مینڈ پھانسی دھرے ہر یک جھاڑ رہزن ہو آنٹی کرے      ( ١٦٦٥ء، علی نامہ، نصرتی، ٨٢ )
  • A twist;  a bundle (of grass
  • wood)
  • hank or skein (of thread);  a knot or loop (serving as a pocket)