سلوک

( سُلُوک )
{ سُلُوک }
( عربی )

تفصیلات


سلو  سُلُوک

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے اسم مشتق ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء کو حسن شوقی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : سُلُوکوں [سُلُو + کوں (و مجہول)]
١ - برتاؤ، عمل، رویہ۔
"انہوں نے آب حیات میں غالب . کے ساتھ وہ سلوک کیا جو کئی اور شعرا کے ساتھ کر چکے تھے۔"      ( ١٩٨٨ء، نگار، کراچی، اپریل، ٥٢ )
٢ - [ تصوف ]  طلب قرب حق، فنائے بشریت اور بقائے الوہیت، حق تعالٰی کا قرب چاہنا۔
"جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات میں نصف شب کے بعد سلوک سے جذب میں چلے جاتے ہیں۔"      ( ١٩٨٦ء، جوالامکھ، ٢٢١ )
٣ - خیر خواہی، بھلائی، نیکی، احسان۔
"شروع سے ان کے سلوک اور احسان یاد کرو پھر دیکھ یہ کس برتاؤ کے حقدار ہیں۔"      ( ١٩٣٦ء، نالۂ زار، ٨ )
٤ - میل ملاپ، دوستی، محبت، اتحاد۔
"تیری بیٹی اور داماد میں لڑائی رہتی تھی یا سلوک تھا۔"      ( ١٩١٠ء، راحت زمانی، ٥٦ )
٥ - رستہ، طریقہ۔
 باقی نہ رہا علم کا جب کوئی سلوک تب جا کے مقام جہل پایا ہم نے      ( ١٩٣٧ء، جنون و حکمت، ١٦ )
٦ - راہ چلنا، روانہ ہونا، چلنا۔
"لغت میں سلوک کے معنی راہ چلنے کے ہیں۔"      ( ١٩٢١ء، مصباح التعرف، ١٤٧ )
٧ - دادودہش، بخشش و عطا، مالی مدد۔
 شہرہ ہے اپنی جو دوسخا کا ملوک میں حاتم سے بھی سخی ہیں سوا ہم سلوک میں      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ١٥٦ )
  • Road
  • way;  Manner
  • mode
  • conduct;  intercourse
  • usage
  • treatment
  • civility
  • kindness
  • attention