ضرور

( ضَرُور )
{ ضَرُور }
( عربی )

تفصیلات


ضرر  ضَرُور

عربی زبان میں مشتق اسم صفت ہے۔ اردو میں بطور صفت، متعلق فعل اور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - وہ بات جس کا ہونا یا کرنا لازم ہو، فرض، واجب، ضروری۔
"کیا ضرور تھا کہ نواب مرزا کی خیر خواہی خورشید مرزا پر ظاہر ہو۔"      ( ١٩٢٤ء، اختری بیگم، ١١٠ )
٢ - مطلوب، درکار۔
 مرتا ہے غیر کس لیے کٹتا ہے یار کیوں حاضر ہیں جان و دل جو کسی کو ضرور ہوں      ( ١٨٤٦ء، آتش، کلیات، ١٠١ )
متعلق فعل
١ - (تاکید کے لیے) لازمی طور پر، یقیناً۔
"ہمارے چچا رہتے تھے، ضرور آپ کے والد صاحب انہیں جانتے ہوں گے۔"      ( ١٩٧٤ء، ہمہ یاراں دوزخ، ٢٩٠ )
٢ - [ طنزا ]  ہرگز نہیں، کی جگہ۔
 ہنس کے کہنے لگی یہ وہ مفرور ایسے فقروں میں آگئی میں ضرور      ( ١٨٧١ء، شوق لکھنوی، فریب عشق، ٢٩ )
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - احتیاج، حاجت، ضرورت۔
 کیا یہ اوس کی سخاوت نے سب کو مستغنی نہیں کسی کی کسی کو ضرورت عالم میں      ( ١٨٧٩ء، دیوانِ عیش دہلوی، ٤١ )
  • فَرَض
  • یَقِیناً