شنوائی

( شَنْوائی )
{ شَن + وا + ای }
( فارسی )

تفصیلات


شنودن  شُنوا  شَنْوائی

فارسی زبان میں مصدر 'شنودن' سے حاصل مصدر 'شنو' کے ساتھ لاحقہ صفت 'ا' ملنے سے شُنوا' کے ساتھ 'ئی' بطور لاحقۂ کیفیت بڑھانے سے 'شنوائی' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوا ہے اور سب سے پہلے ١٧٦٥ء کو "چھ سدہار (قلمی نسخہ)" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : شَنْوائِیاں [شَن + وا + اِیاں]
جمع غیر ندائی   : شَنْوائِیوں [شَن + وا + اِیوں (واؤ مجہول)]
١ - سننے کا عمل یا قوت، قوتِ سماعت۔
 عجب کیا ہے کسی پتھر میں شنوائی ابھر آئے صدائے گم شدہ ہوں گھومتا ہوں کہساروں میں      ( ١٩٧٥ء، حکایت نے، ٤٥ )
٢ - حاکم کے روبرو کسی دعوے یا درخواست وغیرہ کی سماعت، عدالت کی کارروائی، مقدمے کا سننا۔
"یہاں فریادی کی ہر وقت رسانی ہے، امیر و غریب کی یکساں شنوائی ہے۔"      ( ١٩٨٤ء، قلمرو، ١٥٧ )
٣ - توجہ، التفات، سنائی، مبذولی، رُخ دینا۔
"ہم خاصی دیر ان کے آہنی پھاٹک پر دسک دیتے رہے مگر کوئی شنوائی نہ ہوائی۔"      ( ١٩٧٧ء، میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، ٣٢ )
  • Hearing