توجہ

( تَوَجُّہ )
{ تَوَج + جُہ (ضمہ ج مجہول) }
( عربی )

تفصیلات


وجہ  تَوَجُّہ

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب 'تفعل' سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ سب سے پہلے اردو میں ١٦٥٧ء کو "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
جمع   : تَوَجُّہات [تَوَج + جُہات (ضمہ ج مجہول)]
١ - کسی کی طرف رخ کرنا، میل، رغبت۔
"اس رنگ میں خواجہ عمرو نے یہ اشعار گائے کہ ماہ رخسار کو بھی توجہ ان پر ہوئی۔"      ( ١٩٠٠ء، طلسم خیال سکندری، ٢٣:٢ )
٢ - مہربانی، عنایت۔
"رسول اللہ مجھ پر ترس کھاتے اور بہت توجہ دیتے تھے۔"      ( ١٩٥٨ء، ابوالکلام، رسول عربی، ٢٧٣ )
٣ - خیال، فکر، غور۔
"بابل کے آثار قدیمہ نے . توجہ کو موجود صدی سے ہٹا کر آج سے تیس صدی پیشتر کی جانب پھیر دیا ہے۔"      ( ١٩١٣ء، مضامین ابوالکلام آزاد، ٣ )
٤ - [ تصوف ] سالک کا اپنے وجود کو نیست و نابود سمجھنا اور حق کو موجود جاننا، خود کو خدا کے وجود سے موجود جاننا۔
"ان کے پاس میرا باپ گیا، شیخ کی حالت توجہ و بے خودی میں پوچھا کہ میرے کے فرزند ہوں گے۔"    ( ١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ٣:٦ )
٥ - سالک کا اپنی طاقت قلب کو دوسروں کے قلب پر ڈالنا اور دوسرے کے قلب کو اپنے اختیار میں لانا۔
"تیسرا بولا . مسمریزم اور توجہ میں کیا فرق ہے۔"    ( ١٩١٩ء، روزنامچہ، حسن نظامی، ٥٧ )
٦ - دل کی جانب متوجہ رہنا اور کوئی خطرہ یا وسواس نہ آنے دینا۔
"طریقت میں توجہ سو دل طرف متوجہ رہنا اور دل میں خطرہ نہ آنے دینا۔"    ( ١٧٧٢ء، شاہ میر، اشباہ الطالبین، ٦٣ )
٧ - [ روحانیات ]  کسی بزرگ کے نفسیاتی عمل کے ذریعے معمول پر اثر ڈالنا کسی کو نگاہ یا خیال یا تصور کے ذریعے اپنے ذہنی و قلبی تہیج کے زیراثر لانا۔
"دیر تک توجہ فرماتے رہے . تقریباً پانچ منٹ تک توجہ فرمائی۔"      ( ١٩٥٨ء، عمر رفتہ، ٦٨ )
  • directing the steps (towards)
  • turning (towards or to);  countenancing
  • regarding
  • attending (to);  inclination;  regard;  attention
  • consideration
  • countenance
  • favour
  • kindness
  • obliging ness