اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
١ - کسی کی طرف رخ کرنا، میل، رغبت۔
"اس رنگ میں خواجہ عمرو نے یہ اشعار گائے کہ ماہ رخسار کو بھی توجہ ان پر ہوئی۔"
( ١٩٠٠ء، طلسم خیال سکندری، ٢٣:٢ )
٢ - مہربانی، عنایت۔
"رسول اللہ مجھ پر ترس کھاتے اور بہت توجہ دیتے تھے۔"
( ١٩٥٨ء، ابوالکلام، رسول عربی، ٢٧٣ )
٣ - خیال، فکر، غور۔
"بابل کے آثار قدیمہ نے . توجہ کو موجود صدی سے ہٹا کر آج سے تیس صدی پیشتر کی جانب پھیر دیا ہے۔"
( ١٩١٣ء، مضامین ابوالکلام آزاد، ٣ )
٤ - [ تصوف ] سالک کا اپنے وجود کو نیست و نابود سمجھنا اور حق کو موجود جاننا، خود کو خدا کے وجود سے موجود جاننا۔
"ان کے پاس میرا باپ گیا، شیخ کی حالت توجہ و بے خودی میں پوچھا کہ میرے کے فرزند ہوں گے۔"
( ١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ٣:٦ )
٥ - سالک کا اپنی طاقت قلب کو دوسروں کے قلب پر ڈالنا اور دوسرے کے قلب کو اپنے اختیار میں لانا۔
"تیسرا بولا . مسمریزم اور توجہ میں کیا فرق ہے۔"
( ١٩١٩ء، روزنامچہ، حسن نظامی، ٥٧ )
٦ - دل کی جانب متوجہ رہنا اور کوئی خطرہ یا وسواس نہ آنے دینا۔
"طریقت میں توجہ سو دل طرف متوجہ رہنا اور دل میں خطرہ نہ آنے دینا۔"
( ١٧٧٢ء، شاہ میر، اشباہ الطالبین، ٦٣ )
٧ - [ روحانیات ] کسی بزرگ کے نفسیاتی عمل کے ذریعے معمول پر اثر ڈالنا کسی کو نگاہ یا خیال یا تصور کے ذریعے اپنے ذہنی و قلبی تہیج کے زیراثر لانا۔
"دیر تک توجہ فرماتے رہے . تقریباً پانچ منٹ تک توجہ فرمائی۔"
( ١٩٥٨ء، عمر رفتہ، ٦٨ )