قباحت

( قَباحَت )
{ قَبا + حَت }
( عربی )

تفصیلات


قبح  قَباحَت

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں عربی سے معنی و ساخت کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوانِ حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : قَباحَتیں [قَبا + حَتیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : قَباحَتوں [قَبا + حَتوں (و مجہول)]
١ - خرابی، برائی، نقص، عیب۔
"معاشرے اور فرد کے مسائل کا ہم معنی ہونے میں کیا قباحت محسوس کی جا سکتی ہے۔"      ( ١٩٨٣ء، حصار، ١١ )
٢ - حرج، مضائقہ، رکاوٹ، تردد۔
"وہ ادب کا ایک حصہ اور ادب کی ایک صنف ہے جس کے چھپنے میں اب کیا قباحت رہ جاتی ہے۔"      ( ١٩٧٩ء، کیسے کیسے لوگ، ١٠ )
  • baseness
  • base action
  • villainy
  • deformity;  perversion
  • abuse;  crime
  • wrong;  evil
  • ill;  inconvenience;  harm
  • detriment
  • damage
  • loss;  imperfection;  defect