ستم

( سِتَم )
{ سِتَم }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - ظلم، بے انصافی، اندھیر۔
"عیسائی فوجوں نے کونسا ستم ہم پر روا نہیں رکھا۔"      ( ١٩٨٥ء، طوبٰی، ٥٨٦ )
٢ - غضب، قیامت۔
"شوہر کے کچوکے، اس پر ستم شاہدہ کا مضحکہ۔"      ( ١٩١٩ء، جوہر قدامت، ٦٤ )
١ - سِتم اٹھانا
ظلم سہنا، جوروجفا برداشت کرنا۔ ستم کیا کیا اٹھائے ہم نے تیرے، ناتواں ہو کر ہمیں کچھ امتحاں میں پورے اترے نیم جاں ہو کر      ( ١٩٠٣ء، نظم نگاریں، ٥٨۔ )
٢ - سِتم توڑنا
شدید ظلم یا تشدد کرنا، سخت آزار پہنچانا، حشر برپا کرنا۔"اورنگ زیب نے. پر کیا کیا ستم توڑے"      ( ١٩٨٢ء، آتش چنار، ٦٤٩ )
٣ - سِتَم ڈھانا
بہت ظلم یا تشدد کرنا، حشر برپا کرنا، شدید صورت حال پیدا کرنا۔ بلاکش ہو گئے آخر بلا گرداں تھے سب جن کے ستم خوردہ ہیں وہ بھی ستم ڈھانے کے قابل تھے      ( ١٩٨١ء، حرف دل رس، ٤٨۔ )
کوئی عجیب بات یا انوکھا کام کرنا۔"ہپی لڑکا ناجی کی شاعری میں کھل کھیلتا. ستم ڈھاتا بانکپن دکھاتا. ہے"      ( ١٩٨٢ء، تاریخ ادب اردو، ٢٤٨:١،٢ )
١ - ستم بالائے ستم
ایک تکلیف یا پریشانی پر دوسری تکلیف یا پریشانی، ظلم پر ظلم، ایذا پر ایذا۔"کوہ و کمر کا حسن اور اس کے ساتھ ساتھ بھوک کی ارزانی، اور ستم بالائے ستم تنگ نظری"      ( ١٩٨٦ء، فیضان فیض، ٣٢۔ )
  • Tyranny
  • oppression
  • injustice
  • extortion
  • distress;  violence
  • outrage
  • affliction