اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - وہ مدعا یا مفہوم جس کے حق ہونے پر قائل زور دے، یا مصر ہو، یقین، صداقت کے ساتھ پر زور لفظوں میں کہی ہوئی بات، کوئی ایسی بات کہنے کا عمل جس کے دلیل دی جائے یا جسے دلیل کی ضرورت ہو۔
"مشکلات پر قابو پا کر انسان عناصر فطرت اور مخالف قوتوں کے سامنے شمعیں جلانے کا دعوٰی کر سکتا ہے۔"
( ١٩٨٣ء، حصارانا، ٢٢ )
٢ - وہ بات جو چاہی جائے، درخواست، خواہش، مطالبہ؛ طلبگاری۔
"اگر خدا تو فیق دے میری رقم مجھے دے دینا، ورنہ خیر، میرا تم سے کوئی دعویٰ نہیں۔"
( ١٩٤٦ء، شیرانی، مقالات، ٥٣ )
٣ - استغاثہ، نالش (جو عدالت کے سامنے پیش کی جائے)۔
"دلی آکر انہوں نے اپنے ورثے کا دعویٰ کر دیا۔"
( ١٩٨٣ء، نایاب ہیں ہم، ٥٦ )
٤ - کسی شخص کے تصرف پر زور ہوئے کا استحقاق، حق۔
"میرا تم پر کچھ زور اور دعویٰ ہے یا نہیں۔"
( ١٩١١ء، قصۂ مہر افروز، ٣٨ )
٥ - کسی بات کا زعم، غرور۔
"اگر تجھے بھی دعویٰ اپنی سپہ گری پر ہے تو جو تجھ سے ہو سکے کمی نہ کرنا۔"
( ١٩٠٤ء، آفتاب شجاعت، ٢٠٩:٤ )
٦ - مقابلہ، دوسرے کے مساوی یا اہل ہونے کا اِدعا۔
دعویٰ کیا ہے ان کی رخ بے مثال کا کہ دو قمر سے داغ تو دھو ڈالے گال کا
( ١٨٧٣ء، کلیات قدر، ١٣٤ )
٧ - [ ریاضی، منطق ] وہ کلیہ یا مسلمہ و مفروضہ جس کے لیے صغریٰ کبریٰ کے ذریعے دلیل قائم کی جائے۔
"اقلیدس میں سطر ڈیڑھ سطر کا دعویٰ ہوتا ہے اور اس کے ثبوت ورق کے ورق۔"
( ١٨٩٩ء، رویائے صادقہ، ١١٩ )
٨ - [ فلسفہ ] ثبوتِ عقل و دلیل۔
"پربھا کر حد اوسط کے مفالطات کے ساتھ صغریٰ (پکشا بھاس)، دعویٰ (پرتگیا بھاس) اول نظیر (درشٹانت آبھاس) کے مفالطات الگ الگ شمار کراتا ہے۔"
( ١٩٤٥ء، تاریخ ہندی فلسفہ، ٥٦٩:١ )