قرینہ

( قَرِینَہ )
{ قَرِی + نَہ }
( عربی )

تفصیلات


قرن  قَرِینَہ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں حقیقی معنی و ساخت کے ساتھ داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٦٥ء کو "علی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : قَرِینے [قَری + نے]
جمع   : قَرِینے [قَری + نے]
جمع غیر ندائی   : قَرِینوں [قَری + نوں (واؤ مجہول)]
١ - ایک چیز کی دوسری چیز سے پیوستگی یا مناسبت یا قربت، باہمی تعلق۔
"تصریحات لغت کے علاوہ تاریخی قرینہ نہایت قوی موجود ہے۔"    ( ١٩٠٤ء، مقالاتِ شبلی، ٢٢٩:١ )
٢ - قیاس، اندازہ، علامت۔
"قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹوٹ گیا ہو گا اس لیے تاروں سے جوڑ دیا ہو گا۔"    ( ١٩١٤ء، سیرت النبیۖ، ٢٠٢:٢ )
٣ - ڈھنگ، وضع، طور طریق، انداز، علامت، طریقہ۔
 صرف تھوڑا سا ملاوٹ کا قرینہ چاہیے چائے کی پتی سے کٹ سکتا ہے بندے کا جگر      ( ١٩٨٦ء، قطع کلامی، ١٠٧ )
٤ - موزونیت، سلیقہ، ترتیب۔
"انھوں نے . زندگی میں امکان کی حد تک ایک قرینہ اور ترتیب پیدا کرنے کی کوشش کی۔"      ( ١٩٨٢ء، آتش چنار، ١٩٧ )
٥ - حقے کے نیچے کی چھوٹی لکڑی جس کے ذریعے دھواں حقے میں جا کر نیچے سے باہر نکلتا ہے۔
"حقے کے اجزا اور اسباب کے نام یہ ہیں . قرینہ۔"      ( ١٨٤٨ء، توصیفِ زراعات، ١٣٤ )
  • سَلِیْقَہ
  • context;  cause;  conjecture;  general tenure;  similarity
  • analogy;  connexion
  • order;  method of procedure
  • way
  • mode
  • manner