طبیعی

( طَبِیعی )
{ طَبی + عی }
( عربی )

تفصیلات


طبع  طَبْع  طَبِیعی

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم صفت ہے۔ اردو میں بطور صفت اور اسم مستعمل ہے۔ ١٨١٠ء کو "اخوان الصفا" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - پیدائشی، فطری۔
"مادئیین جو خدا اور عالم کی وحدت کا اقرار کرتے ہیں یہ لوگ طبیعی وحدتِ وجود کے ماننے والا ہیں۔"      ( ١٩٢٩ء، مفتاح الفلسفہ، ٢٢٨ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - حکمت کی ایک شاخ کا نام جس میں اجسام کے تغیر و تبدل اور ان کی خاصیت کا حال بیان کیا جاتا ہے۔
"خواہ بذریعہ تحصیل علومِ ہئیت و فلسفہ و طبیعی و ہندسہ و حکمت اخلاق وغیرہ حاصل کیا ہو۔"      ( ١٨٨٥ء، تہذیب الخصائل، ١٠٨:٢ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - [ فلسفہ ]  حکما کا وہ گروہ نیز وہ شخص جو مادے کو قدیم مانتا ہے اور خدا کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا۔
"صنم کدہ . کے پرستاروں کے نام . مادہ پرست، فطرت پرست اور طبیعی ہیں۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ، ٦١:٣ )
٢ - علم طبیعیات کا استاد، ماہر طبیعیات۔
 ہونے والا تھا ریاضی کا چمن وقفِ خزاں آنے والا تھا تباہی میں طبیعی کا جہاز      ( ١٩١٩ء، رعب، کلیات، ٢٩٩ )
٣ - [ طب ]  صیدلی، تناقض کی ایک قسم، ایک عمل جو اس وقت واقع ہوتا ہے جب کہ اجزا پانی میں حل پذیر نہ ہوں اور ایک صاف محلول نہ بنے۔ (علم الادویہ (ترجمہ)، 113:1)