جزیرہ

( جَزِیرَہ )
{ جَزی + رَہ }
( عربی )

تفصیلات


اصلاً عربی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور معنی میں ہی بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٨٢ء میں "رضوان شاہ و روح افزا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : جَزِیرے [جَزی + رے]
جمع   : جَزِیرے [جَزی + رے]
جمع استثنائی   : جَزائِر [جَزا + اِر]
جمع غیر ندائی   : جَزِیروں [جَزی + روں (و مجہول)]
١ - خشکی کا وہ بڑا قطعہ جو چاروں طرف سے دریا یا سمندر کے پانی سے گھرا ہو، ٹاپو۔
"فرمایا : تم لوگ جزیرہ عرب میں لڑو گے اور خدا فتح دے گا۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبی، ٦٣٠:٣ )
٢ - لغت میں جزیرے کے حقیقی معنی وہ جگہ ہے جہاں سے پانی ہٹ گیا ہو۔ (بلوغ الادب (ترجمہ)، 417)
٣ - [ فلکیات - استعارۃ ]  ستاروں کا جھرمٹ یا الگ تھلگ وجود یا نظام۔
"آسمانی فضا میں دور، بہت دور تک ستاروں کے جزیرے یا الگ الگ نظام واقع ہیں۔"      ( ١٩٤٣ء، پندرہ روزہ 'آجکل' دہلی، یکم جون، ٤ )
  • دِیْپ
  • پَتْواز
  • بیلہ
  • آبْ خُو
  • an island;  a peninsula