خشکی

( خُشْکی )
{ خُش + کی }
( فارسی )

تفصیلات


خُشْک  خُشْکی

فارسی زبان سے ماخوذ اسم صفت 'خشک' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقہ کیفیت ملانے سے 'خشکی' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٣٥ء میں "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - سوکھی زمین، کائنات میں نمی نہ رکھنے والی جگہ، تری یا نمی کی ضد۔
"آب و ہوا کے لیے مختلف علاقوں کی جماعت بندی خشکی کے بڑے علاقوں کی قربت اور عرض بلد کے لحاظ سے بھی کی جاتی ہے۔"      ( ١٩٤٤ء، مخزن علوم و فنون، ٣٣ )
٢ - [ مجازا ]  ساحل، گودی، دھکہ، جہازوں کے رکنے کا مقام۔
"کولمبس نے اعلان کر دیا کہ جو شخص خشکی دکھائی دینے کی سب سے پہلے خوشخبری لائے گا اسے بہت بڑا انعام دیا جائے گا۔"      ( ١٩٧٥ء، تلاش کے سفر، ١١ )
٣ - روکھا پن، بے مروتی، بے رحمی، اکھڑ پن، کھرا پن۔
"ہر ہر حرکت میں خشکی تکلف اور احتراز کا پہلو دکھائی دیتا تھا۔"١٩٣٨ء، حرماں نصیب، ٧٢
٤ - رنج و غم کی کیفیت، یاس، پڑمردگی، کملاہٹ۔
"شعراء کے بعد اردو میں خشکی اور افسردگی پھیلانے والے چند اسباب اور بھی ہیں۔"      ( ١٩٣٣ء، زندگی (مقدمہ)، ١٨ )
٥ - بھوسی جو سر میں پیوست یا کسی مرض کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، بفا۔
"(خشکی) کو ہندوستانی میں بفا کہتے ہیں۔"      ( ١٨٨٤ء، کلیات علم طب، ٢، ١٠١٣ )
٦ - سردی کے سبب جسم کی کھال کا سوکھنا، پھٹنا۔
"خشکی بدن کے پوست پر ظاہر ہوئی۔"      ( ١٨٠١ء، ہفت گلشن، ٣٨ )
٧ - باریک سوکھا آٹا جو روٹی کے پیڑے میں اس غرض سے لگاتے ہیں کہ گیلا آٹا ہاتھ میں نہ چپکے، پلیھْن۔
"آگے لگن میں آٹا گندھا رکھا ہے چکلا بیلن چھوٹی سی تشتری میں خشکی ہے۔"      ( ١٩٤٠ء، آغا شاعر، ارمان، ٧ )
٨ - [ طب ]  سوکھا پن، اندمال۔
"ٹیکے میں پیپ حقیقی بھری ہوئی تو ہوتی ہے اور خشکی چھٹے روز سے آٹھویں دن تک ہونے لگتی ہے۔"      ( ١٨٥٣ء، رسالہ تعلیم، ١٠ )
٩ - [ طب ]  ترکی ضد، جسم انسانی میں تراوٹ کی کمی جو ایک مرض بن جاتی ہے۔
"اگر خشکی کا سبب یہ ہو کہ عروق میں غذا موجود نہیں تو سر پر دودھ دوہیں۔"      ( ١٩٣٦ء، شرح اسباب (ترجمہ)، ١٢:٢ )
١٠ - [ طب ]  لواثہ، ایک جڑی بوٹی جو عورتیں اپنی فرج کو تنگ کرنے کے لیے، دوا کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ (سرمایہ زبان اردو، 157)
١١ - [ زراعت ]  تقسیم اراضی میں منتشر کھیتوں کا مخصوص حصہ۔
"کن کان کے علاقے میں چاول کی زمین کی کاشت اس کو ضروری بنا دیتی ہے کہ خشکی(ورکس) کی زمین کی کچھ مقدار بھی قبضے میں رکھی جاش۔"      ( ١٩٤٠ء، معاشیات ہند، (ترجمہ) ٣٢٤:١ )