آوازہ

( آوازَہ )
{ آ + وا + زَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ ہے اور اردو میں اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی مستعمل ہے سب سے پہلے ١٦٤٩ء میں "خاورنامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : آوازے [آ + وا + زے]
جمع   : آوازے [آ + وا + زے]
جمع غیر ندائی   : آوازوں [آ + وا + زوں (واؤ مجہول)]
١ - شہرت، چرچا، دھوم، نام آوری۔
 جب سے سنا ہے آپ کا آوازہ جمال جس دل کو دیکھیے وہ مہیایے عشق ہے      ( ١٩٢٣ء، کلیات حسرت، ١٨١ )
٢ - طعن و تشنیع، پھبتی (عموماً جمع کے ساتھ)۔
"حقارت کے آوازے ہوں گے "شیم شیم" کے نعرے ہوں گے۔"      ( ١٩١٥ء، سی پارہ دل، ١٩٤:١ )
٣ - آواز، شور و غل، بانگ وغیرہ۔
 سودا کبھی نہ مانیو واعظ کی گفتگو آوازہ دہل ہے خوش آئند دور کا      ( ١٩١٧ء، کلیات حسرت، ١١٤ )
١ - آوازہ بلند کرنا
شہرت دینا؛ اعلان کرنا۔'تبدیل منزل اور تغیر مکان کا بہانہ بنا کے کوچ کا آوازہ بلند کیا۔"      ( ١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ٦:٨ )
٢ - آوازہ پھینکنا
پھبتی کسنا، طنز سے درپردہ کچھ کہنا، چوٹ کرنا، بولی ٹھولی مارنا۔ اس کو عیار کہو تم یہ یقیں ہے کس کو غیر کے نام سے آوازہ یہ مجھ پر پھینکا      ( ١٩٠٥ء، یادگار داغ، ١٤٧ )
  • Noise;  report;  rumour
  • frame