آنند

( آنَنْد )
{ آ + نَنْد }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے اردو میں داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے غواضی کے "طوطی نامہ" میں ١٦٣٩ء کو مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - خوش، مگن، بے فکر۔
"جب وہ تپشیا کر کے باہر نکلا اس نے جھک کر سلام کیا وہ بولا بچہ آنند رہو۔"      ( ١٨٩٠ء، فسانہ دلفریب، ١١١ )
اسم مجرد ( مذکر - واحد )
جمع   : آنَنْدیں [آ + نَن + دیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : آنَنْدوں [آ + نَن + دوں (و مجہول)]
١ - خوشی، مسرت، شادمانی۔
"گائے کے آنے کا آنند تو جب ہے کہ اس کا . قدم بھی اچھا ہو۔"      ( ١٩٣٥ء، گؤدان، ٥٩ )
٢ - چین، سکھ، آرام، عیش۔
"قسمت مجھ سے یہ آنند کا گھر چھوڑا رہی ہے۔"      ( ١٩٣٦ء، پریم چند، پریم پچیسی، ٨٢:٢ )
٣ - مزہ، لطف اندوزی۔
"آج یہیں سہ بھوجیہ کا آنند رہے گا۔"      ( ١٩٢١ء، پتنی پرتاپ، ٩٤ )
  • اِنْبَساط
  • شادْمانی
١ - آنند کے تار بجانا
عیش کرنا، مگن رہنا، چین کی ہنسی بجانا۔'بننا سنورنا، پہننا اوڑھنا، نہ سہی، نہ سہی دل کو تھا تو چین، اپنے بجاتی تو تھی آنند کے تار۔"      ( ١٩٢٨ء، پس پردہ، ١٢٧ )
٢ - آنند کے تار بجنا
آنند کے تار بجانا کا فعل لازم ہے نوشہ کو مراثی سج رہے تھے آنند کے تار بج رہے تھے      ( ١٨٩٢ء، (مثنوی) ناز و نعمت، اختر نگینوی، ١٢ )