گرفتہ

( گِرِفْتَہ )
{ گِرِف + تَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں مصدر 'گرفتن' کا اسم مفعول 'گرفتہ' اردو میں بطور اسم صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٩٨ء کو "دیوانِ میرسوز" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع استثنائی   : گِرِفْتَگان [گِرِف + تَگان]
١ - گرفتار، بند، گھٹا ہوا، (مجازاً) افسردہ، مغموم، ملول۔
 واشد دل نہ ہوئی اور گرفتہ سے ہوئے رد کرو اب گل و گلزار کو صحرا دیکھو      ( ١٨٣٢ء، دیوان رند، ١١٩:١ )
٢ - پکڑا ہوا، اور گرفتار، مرکبات میں بطور جزو دوم مستعمل۔
"جب پت جھڑ اپنے عروج پر ہو اور ہوائیں گزرتے ہوئے سال کا نوحہ گا رہی ہوں، کسی شب گرفتہ راہی نے دیکھا ہو۔"      ( ١٩٦٥ء، شاخ زریں، ١١:١ )