گرفتاری

( گِرِفْتاری )
{ گِرِف + تا + ری }
( فارسی )

تفصیلات


گِرِفْتار  گِرِفْتاری

فارسی زبان سے ماخوذ اسم صفت 'گرفتار' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے 'گرفتاری' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : گِرِفْتارِیاں [گِرِف + تا + رِیاں]
جمع غیر ندائی   : گِرِفْتارِیوں [گِرِف + تا + رِیوں (و مجہول)]
١ - پکڑ، مواخذہ۔
 پھنسایا اس بت بیگانہ وش کو محبت کی گرفتاری تو دیکھو      ( ١٨٧٨ء، گلزار داغ، ١٧٩ )
٢ - قید، اسیری، نظربندی۔
"نمایاں قائدین کی گرفتاری کے بعد تحریک پوری طرح عوام کے ہاتھ سے چلی گئی۔"      ( ١٩٨٧ء، اور لائن کٹ گئی، ٦٠ )
٣ - الجھاؤ، جنجال، مبتلا شدگی۔
 آنکھیں تا عمر رہیں بند ترے کوچے میں حال کھلنے نہ دیا دل کی گرفتاری کا      ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، میخانۂ الہام، ٩١ )
  • Seizure
  • capture
  • arrest
  • apprehension;  captivity
  • imprisonment
  • bondage;  embarrassment
  • entanglement.