صاحب دل

( صاحِبِ دِل )
{ صا + حِبے + دِل }

تفصیلات


عربی زبان سے اسم مشتق 'صاحب' بطور مضاف کے ساتھ کسرۂ اضافت لگا کر فارسی سے اسم جامد 'دل' بطور مضاف الیہ ملنے سے مرکب اضافی بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ اور سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - دل والا، سخی، بخشِش کرنے والا، کریم، نیک، اچھا آدمی۔
"صاحب دلوں کا دامن پکڑ اگر دولت چاہے تو سخن لا۔"      ( ١٨٠١ء، ہفت گلشن، ٦١ )
٢ - دلیر، شجاع؛ بہادر، ہمت والا۔
 دانا وزی شعور اخرد مند و اہل ہوش صاحب دل و مجاہد و جاں باز سرفروش      ( ١٩١٢ء، شمیم، مراثی (ق)، ١ )
٣ - عارف، بزرگ، متقی۔
"ناگہانی موت میں کسی صاحب دل دباخ کی بددعا کا بھی دخل تھا۔"      ( ١٩٦٨ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٣، ٦١٨ )
٤ - دل میں دوسروں کا درد رکھنے والا، ہمدرد، حساس آدمی۔
"وہ بندہ مغرور نہیں بلکہ . صاحبِ دل، صاحِب فکر اور درویش منش شاعر ہے۔"      ( ١٩٧٧ء، سائیں احمد علی، ٢٧ )
٥ - سمجھدار، دانا، عقلمند، عالی مرتبہ۔
"صاحبِ تاثیر واعظوں اور صاحب دل ناصحوں کی مجلس مشکل سے ایسے واقعات سے خالی ہوتی ہے۔"      ( ١٩٥٣ء، انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر، ١٨٧ )