گفتگو

( گُفْتْگُو )
{ گُفْت + گُو }
( فارسی )

تفصیلات


گفتن  گُفْتْگُو

فارسی زبان کے مصدر 'گفتن' سے حاصل مصدر 'گفتگو' اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٤٩ء کو "خاورنامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - بات چیت، بول چال، تقریر، کلام۔
 نہ ٹھیرا گیا حرف مطلب پہ عاصم بہت موڑ آئے گئے گفتگو میں      ( ١٩٨٨ء، آنگن میں سمندر، ١١٨ )
٢ - شک، شبہ، کلام۔
 نہ قید شرع باقی ہے نہ آزادی کی ہے کچھ حد نہیں کچھ گفتگو اس باب میں یہ نیک ہے یا بد      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٢٧٦:١ )
٣ - چرچا، تذکرہ۔
 ممنوں زباں غمزدہ سے کل اس نے کیا کہا ہے میرے ہم زبانوں میں کچھ گفتگو ہنوز      ( ١٨٤٤ء، ممنون (فرہنگ آصفیہ)۔ )
٤ - حجت، تکرار، بحث۔
 ہر ایک کا ظرف کھل جائے گا اس میں گفتگو کیا ہے خدا آباد رکھے بزم میں شیشے کو قلقل کو      ( ١٨٧٨ء، آغا حسین، دیوان، ١٠٨ )
٥ - تامل، ہچکچاہٹ۔
 ہم نے یہ مانا نہیں دشوار کچھ ترک وفا گفتگو تو صرف اس میں ہے کہ ہم ایسا کریں      ( ١٩١٩ء، درشہوار بے خود، ٥٤ )
٦ - [ تصوف ]  اشارات محبت انگیز۔ (مصباح التعرف، 209)
  • Conversation
  • discourse
  • dialogue
  • common talk
  • chit chat;  altercation
  • dispute
  • debate
  • expostulation
  • controversy
  • contention
  • squabble.