تقریر

( تَقْرِیر )
{ تَق + رِیر }
( عربی )

تفصیلات


قرر  تَقْرِیر

عربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مزید فیہ کے باب تفعیل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٠٣ء کو "نوسرہار" بحوالہ اردو ادب، ٦، ٥١:٢، میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : تَقْرِیریں [تَق + ری + ریں]
جمع استثنائی   : تَقْرِیرات [تَق + ری + رات]
جمع غیر ندائی   : تَقْرِیروں [تَق + ری + روں (و مجہول)]
١ - بیان، گفتگو، بات چیت۔
"ایسی فصیح اور پر درد تقریر کی کہ دونوں آبدیدہ ہو گئے۔"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ١٢١ )
٢ - توضیح، تفصیل سے بیان کرنا۔
 لیاقت اتنی کہاں خاکسار کو اس کی کہ اس کی بخشش ہمت کی کر سکے تقریر      ( ١٨٠٣ء، گل بکاؤلی، ٤ )
٣ - وعظ، درس، خطبہ۔
"اب تک عوام اور حاضرین کا کام جلسوں میں سمع و طاعت تھا یعنی تقریروں کا سننا - زیادہ سے زیادہ ووٹ کے لیے ہاتھ اٹھا لینا۔"      ( ١٩١٤ء، محمد علی، ٢٨١:٢ )
٤ - بحث، تکرار، مباحثہ، حجت۔
"اصل میں اس مقام پر ایک تقریر ہے جو متعلق ہے عبارت سے وقایہ کی۔'      ( ١٨٦٧ء، نورالہدایہ، ١٢٩:٣ )
٥ - زبان، بول چال، بولی (تحریر کے بالمقابل)۔
"تقریر اور ہے تحریر اور ہے، اگر تقریر بعینہ تحریر میں آیا کرے تو خواجہ بقراط - یہ سب نثر میں کیوں خون جگر کھایا کرتے۔"      ( ١٨٥٩ء، خطوط غالب، ٤٧٧ )
٦ - آواز، حکایت صوت۔
 آہ سوں عاشق کی عارف بوجھتے ہیں حال دل جیوں کہ سمجھے صوت سوں صراف تقریر طلا      ( ١٧٠٧ء، ولی، کلیات، ٣٨ )
  • speaking
  • discoursing;  relating;  explaining;  confirming;  speech
  • discourse
  • statement
  • declaration
  • assertion
  • narrative
  • account
  • detail;  exposition;  avowal
  • confession ascertainment;  confirmation