ارشاد

( اِرْشاد )
{ اِر + شاد }
( عربی )

تفصیلات


رشد  اِرْشاد

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب افعال سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں ١٥٨٢ء کو "کلمۃ الحقائق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم حاصل مصدر ( مذکر - واحد )
١ - حکم، فرمان۔
"مسلمانوں نے تعلیم کے متعلق حضور اکرمۖ کے ارشاد کو ہمیشہ سر آنکھوں پر رکھا۔"      ( ١٩١٩ء، جوہر قدامت، ١٤٨ )
٢ - ہدایت، رہنمائی۔
 دعوت اور ارشاد سے توڑیں طلسم ارتداد فتنہ شدھی کا جو اٹھا ہے اسے چلتا کریں      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ظفر علی خان، ٤٧٣ )
٣ - نصیحت، پند و وعظ، سمجھانا، بجھانا۔
 آبرو کس کو ہے دوبھر جو کرے ان سے کلام گالیاں بھی وہ دیا کرتے ہیں ارشاد کے بعد      ( ١٨٥٤ء، دیوان اسیر، گلستان سخن، ١٢٦ )
٤ - کہی ہوئی بات، قول۔
"میں نے عرض کی کہ جناب والا کا ارشاد بالکل صحیح ہے۔"      ( ١٩٤٤ء، ایک نواب صاحب کی ڈائری، ٢٢ )
٥ - بیان کرنے یا فرمانے کا عمل، کہنا (کرنا، ہونا کے ساتھ)۔
 کچھ تو کیا ہے اس نے ارشاد اس طرح کا جو اس کے غم میں ہے دل ناشاد اس طرح کا      ( ١٨٠٩ء، کلیات جرات، ١٣٤ )
  • direction
  • instruction;  order
  • command
  • bidding;  will
  • pleasure