گنجائش

( گُنْجائِش )
{ گُن (ن غنہ) + جا + اِش }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٣٣ء کو "کربل کتھا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : گُنْجائِشیں [گُن (ن غنہ) + جا + اِشیں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : گُنْجائِشوں [گن (ن غنہ) + جا + اِشوں (واؤ مجہول)]
١ - سمائی، کھپت، سمانے کی جگہ، وسعت۔
"میں نے اپنے دونوں پیروں کو آگے کھسکایا مزید گنجائش پیدا کی۔"      ( ١٩٨٦ء، قطب نما، ٦٨ )
٢ - موقع، محل، جگہ۔
"ماں اور بیٹے کے نفسی تعلق کی تشریح میں ایڈی پس الجھاؤ کے علاوہ بھی بہت کچھ کہنے کی گنجائش ہے۔"      ( ١٩٨٣ء، تخلیق اور لاشعوری محرکات، ١٢٥ )
٣ - بساط، مقدور۔
"میں نے اپنے ذمے ڈالے ہیں اگرچہ . مجھ میں دینے کی گنجائش نہیں ہے مگر میں ادا کردوں گا انشاء اللہ تعالٰی۔"      ( ١٨٨٤ء، خطوط سرسید، ١١٦ )
٤ - بچت، کفایت، بچت کا راستہ۔
"سوچا کہ کیا کروں? کہاں سے گنجائش نکالوں? قہر درویش بجان درویش صبح کو تبرید متروک، چاشت کا گوشت آدھا، رات کو شراب و گلاب موقوف، بیس بائیس روپے مہینہ بچا۔"      ( ١٨٦٢ء، خطوط غالب، ٧٩ )
٥ - نفع، فائدہ۔ (پلیٹس)
٦ - قابل وصول مالگزاری، وہ خراج جو وصول ہو سکے۔ (فرہنگ آصفیہ)
٧ - [ طبیعیات ]  برقی بار کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت، وہ برقی تار جو موصل کی قوت میں اضافہ کرے۔
"جو اس موصل کو قوۃ میں اکائی پیدا کرے۔"      ( ١٩٢٢ء، طبیعیات، عملی، ٨٦:٢ )