ڈفلی

( ڈَفْلی )
{ ڈَف + لی }
( عربی )

تفصیلات


دفف  ڈَفْلی

اصلاً عربی زبان کا لفظ 'دَفّ' ہے فارسی کے توسّط سے اردو میں داخل ہوا اور متبادل املاء 'ڈف' کے ساتھ مروج ہو گیا۔ ڈف کے آخر پر 'لی' لاحقہ تصغیر لگانے سے 'ڈفلی' بنا۔ جو اردو میں بطور اسم مستعمل ہے سب سے پہلے ١٨٤٤ء میں "ترجمہ گلستان" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم آلہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : ڈَفْلِیاں [ڈَف + لِیاں]
جمع غیر ندائی   : ڈَفْلِیوں [ڈَف + لِیوں (و مجہول)]
١ - ڈفلا، چھوٹ دَف۔
"ان کے (٣٠ ق م کے مصر کے لوگ) گانے کے اوزاروں میں ڈفلی اور ترم شامل تھے۔"      ( ١٩٤٤ء، آدمی اور مشین، ٥٧ )
٢ - بھیک مانگنے کا کاسہ جسے بجا کر فقیر پیسہ مانگتے ہیں۔
"تمام عمر اس کی ہتھیلی پر درم اور ڈفلی میں ٹکڑا نہ پڑا تھا۔"      ( ١٨٤٤ء، ترجمہ گلستان، حسن علی خان، ٥١ )
  • A kind of tambourine or tabor