١ - بازی گروں کا جڑواں پیالے کی شکل کا چھوٹا سا ساز جس کے دونوں طرف کھال منڈھی ہوتی ہے، اس کے بیچ میں دو ڈوریاں بندھی ہوتی ہیں جن کے سروں پر مضبوط گانٹھ لگی ہوئی ہوتی ہے جن کی ضرب سے یہ باجا بجایا جاتا ہے یہ باجا ایک ہاتھ میں پکڑ کر ہلانے سے بجتا ہے، ڈرو، ڈمرو۔
"جھرو کے تلے ایک بندر والا ڈگڈگی بجا کر اپنے بندر بندریا کو نچا رہا ہے۔"
( ١٩٨٤ء، زمین اور فلک اور، ٢٥ )
٣ - خانقاہ حضرت شاہ ابوالخیر ترکمان گیٹ کے قریب ایک گلی ہے جو ایک دالان تھا جس میں ایک چھوٹی سی دیوار چراغاں کی بنی ہوئی تھی اس میں ایک درویش مداریہ فرقے کے رہتے تھے وہ روشنی کرتے تھے ایسے مکان کو اس فرقہ کی اصطلاح میں ڈگڈگی کہا جاتا ہے اس کی وجہ تسمیہ یہ بتاتے ہیں کہ شاہ صاحب کے دروازے پر ایک دھونسہ (نقارہ) رکھا رہتا تھا جب کوئی مہمان آتا تو ایک چوب لگاتا دو مہمان آتے دو چوب لگاتے۔
"اس سے آگے شاہ کلّن کی ڈگڈگی یعنی مزار ہے۔"
( ١٩٠٣ء، چراعِ دہلی، ٣٦٤ )