بجا

( بَجا )
{ بَجا }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'جا' اور حرف جار 'ب' سے مرکب ہے۔ اردو میں فارسی سے ہی ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت اور گاہے بطور متعلق فعل مستعمل ہے۔ ١٦٥٧ء میں "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - اپنی جگہ پر، برقرار، قائم۔
 لشکر میں اب حواس کسی کے بجا نہیں ڈر سے صداے کوس کا کوسوں پتا نہیں      ( ١٩٦٥ء، اطہر، گلدستہ اطہر، ٢٧:٢ )
٢ - ٹھیک، درست، مناسب۔
 اس کا بھی پاس ہو کہ یہ ہے میری التجا ہاں آپ نے یہ خوب کہا اور بجا کہا      ( ١٩٥٨ء، تار پیراہن، ٢٣٠ )
٣ - بہت اچھا، بہت خوب (کسی سوال کے جواب میں)۔
جاؤ محمد یحیٰی تم کو کپڑے بنوا دیں گے، اس نے کہا بجا۔      ( ١٩٢٦ء، شرر مضامین، ١٥٩:٣ )
متعلق فعل
١ - کسی کی جگہ، عوض میں، بدلے میں (اکثر اضافت کے ساتھ مستعمل)
 صاف تقدیر کا بل ہو گئی ماتھے کی شکن خاک افشاں کی بجا ملتی ہوں شکل جوگن      ( ١٨٦٨ء، شعلہ جوالہ، ٤١٦:٢ )