دوسرا

( دُوسْرا )
{ دُوس + را }

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد 'دو' کے ساتھ سنسکرت زبان سے ماخوذ لاحقۂ ترتیبی 'سرا' لگایا گیا ہے اردو میں ١٥٨٢ء کو "کلمۃ الحقائق" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت عددی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : دُوسْری [دُوس + ری]
واحد غیر ندائی   : دُوسرے [دُوس + رے]
جمع   : دُوسرے [دُوس + رے]
جمع غیر ندائی   : دُوسْروں [دُوس + روں (و مجہول)]
١ - پہلے کے بعد کا، ثانی، دیگر، دوم۔
"ایک بار منصور مدینہ آیا وہ بنو عباس کا دوسرا حکمران تھا۔"      ( ١٩٨٥ء، روشنی، ١٧ )
٢ - اپنے علاوہ کوئی اور؛ غیر، اجنبی، ناجنس۔
 تم مرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا      ( ١٨٥١ء، مومن، کلیات، ٤٥ )
٣ - مقابل، برابر کا، ہمسر۔
"کہا کہ اس کا ثانی اگر عنایت ہو تو عین الطاف ہے ماہ یاز سلیمانی نے کہا کہ اس کا دوسرا تو نہ ملے گا۔"      ( ١٨٠١ء، آرائش محفل، حیدری، ١٦٢ )
٤ - کوئی اور، اور۔
 بجا تھا سحرہ اسے جب تو بے وفا کہنا کسی کے ساتھ اگر دوسرا وفا کرتا    ( ١٩١٨ء، سحر (سراج میر خاں)، بیاض سحر، ٦٩ )
٥ - غم گسار، ہمدرد۔
 یہ اور سوا ہے مجکو وسواس تنہائی ہے دوسرا نہیں پاس    ( ١٨٨١ء، مثنوی، نیرنگ خیال، ٩٩ )
٦ - کچھ اور، مختلف۔
"ایک ہی راستہ نظر آیا اور وہ یہ تھا کہ . کوئی دوسرا فلیٹ لے لوں۔"    ( ١٩٨٤ء، کیمیا گر، ١١٠ )