کسر

( کَسَر )
{ کَسَر }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم 'کَسْر' کی تارید ہے۔ اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨١٠ء کو "کلیاتِ میر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : کَسْریں [کَس + ریں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : کَسْروں [کَس + روں (واؤ مجہول)]
١ - نقص، خرابی۔
"میں خدا کے فضل و کرم سے اچھا ہوں، صحت عامہ تو قریباً بحال ہوگئی ہے البتہ آواز میں ابھی کسر باقی ہے۔"      ( ١٩٣٦ء، اقبال نامہ، ٢٤٥:١ )
٢ - کمی، کوتاہی۔
 حد تکمیل کو پہونچی تری رعنائی، حُسن جو کسر تھی وہ مٹادی تری انگڑائی نے      ( ١٩٤٩ء، جوئے شیر، ٢٤ )
٣ - نقصان، گھاٹا، خسارہ۔
"ریل میں جو کرایہ صرف ہو اس کی کسر قیمت سے پوری ہو جائے گی۔"      ( ١٩٢٤ء، جغرافیۂ عالم، ١١٠ )
٤ - بچوں کے پیٹ کا خلل، بدہضمی۔ (نوراللغات، فرہنگ آصفیہ)
  • Breaking;  breach;  routing
  • putting to fight;  rout;  a fraction;  loss
  • damage;  affliction
  • trouble
  • inconvenience;  contrition;  (in Gram.) the sign ( )of the short vowel;  something wrong or amiss;  something wanting
  • a want;  deficiency
  • defect
  • flaw.