کشتہ

( کُشْتَہ )
{ کُش + تَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی مصدر 'کُشتن' کے حاصل مصدر 'کشت' کے ساتھ 'ہ' بطور لاحقۂ نسبت لگانے سے 'کشتہ' بنا۔ اردو میں بطور صفت اور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : کُشْتے [کُش + تے]
جمع   : کُشْتے [کُش + تے]
جمع غیر ندائی   : کُشْتوں [کُش + توں (واؤ مجہول)]
١ - مردہ۔
"قاضی مومن گھوڑے سے گرا اور وہیں کشتہ ہو گیا۔"      ( ١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ٣١٢:٥ )
٢ - دھاتوں، مثلاً: سونا، چاندی، تانبا وغیرہ یا جواہرات یا پارے پھنکی ہوئی شکل جو راکھ ہو جاتی ہے اور اسے بطور دوا استعمال کیا جاتا ہے۔
"جاڑوں بھر دہلی سے پارسل منگا منگا کر سونے کا کشتہ کھاتا رہتا ہے۔"      ( ١٩٨٦ء، انصاف، ١١٩ )
صفت نسبتی
١ - ذبح کیا ہوا، مقتول، مارا ہوا۔
 وہ گنج شہیداں جسے آباد کیا ہے ان کشتوں میں یوسف بھی ہے اے تیغِ جِفا دیکھ      ( ١٩٨٣ء، دامنِ یوسف، ١٤٤ )
٢ - [ کنایۃ ]  مٹایا ہوا، ستایا ہوا۔
 کیا قیامت ہے کہ خاطر کشتہ شب بھی تھے ہم صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے      ( ١٩٨٥ء، خواب در خواب، ٢٥ )
٣ - مفتوں ، عاشق، دیوانہ۔
 نہ ہو گا کوئی نخلِ سرو جب تک گور عاشق پر ترا کشتہ وہ اے سرور رواں معلوم کیا ہو گا      ( ١٨٥٦ء، کلیات ظفر، ٣:٤ )
  • one who is killed or slain
  • a victim;  a lover;  killed mercury
  • a preparation of mercury