کشاکش

( کَشاکَش )
{ کَشا + کَش }
( فارسی )

تفصیلات


تَکْرار|جَھگْڑا|چَپْقَلِش  کَشاکَش

فارسی زبان کے مصدر 'کشیدن' کے صیغۂ امر 'کش' کی تکرار 'کش کش' بنا۔ مؤخرالذکر 'کش' کے ساتھ 'الف' بطور حرف اتصال ملنے سے 'کشاکش' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - کھینچا تانی، چھینا جھپٹی۔
"اقتدار کی کشاکش یا پاور پالیٹکس کے یہ حربے اور چالیں ہماری دیکھتی آنکھوں آج کی دُنیا میں بھی برتے جا رہے ہیں۔"      ( ١٩٨٦ء، دنیا کا قدیم ترین ادب، ٤٢١:١ )
٢ - پریشانی، کشمکش، الجھن۔
"وہ ایک کھاتے پیتے گھرانے کے فرد تھے، جس کو کبھی آلام روزگار کی کشاکش نے بے قرار نہ رکھا تھا۔"      ( ١٩٨٢ء، آتش چنار، ٥٢٨ )
٣ - ہاتھا پائی، دست و گریبان ہونا، جھڑپ۔
 ابتری، و حشت، تزلزل، طنطنہ، دہشت، فساد دبدبے، گرمی، کشاکش، دغدغے، ہلچل، جہاد      ( ١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٣٦ )
٤ - دھکا پیل، دھکم دھکا۔
"ان کے شور و غل سے ایک ہنگامہ برپا تھا۔"      ( ١٨٩٢ء، سفر نامہ روم و مصر و شام، شبلی، ٢٩ )
٥ - (شاذ) کسی چیز کا بار بار ایک جگہ سے دوسری جگہ باہر آنا جانا۔
 غل تھا کہ برستی ہوئی آتش نہیں دیکھی یہ کاٹ یہ کس بل یہ کشاکش نہی دیکھی      ( ١٨٧٤ء، انیس (نوراللغات) )