دیر

( دَیر )
{ دَیر (ی لین) }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا اردو میں سب سے پہلے ١٦٣٨ء کو "چندر بدن و مہیار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ
جمع غیر ندائی   : دَیروں [دَے + روں]
١ - نصاریٰ کا عبادت خانہ، وہ عبادت گاہ جہاں خدائے وحدہ لاشریک کے علاوہ کسی دوسرے کی پرستش ہو؛ (مجازاً) مندر، بت خانہ۔
"دیندار اشخاص کی امانت کو اپنے سینہ سے لگائے ہوئے زندگی کے میدان سے کنارہ کش ہو کر دیر و کلیسا اور صحراؤں کی تنہائیوں میں پناہ گزیں ہو گئے تھے۔"    ( ١٩٥٣ء، انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر، ٣٨ )
٢ - عیسائیوں کا گرجا، کلیسا۔
"میں پروردگارِ مسیح کے نام پر تجھے دیر کی خدمت کے لیے بلاتا ہوں۔"    ( ١٩٤٢ء، الف لیلہ و لیلہ، ١٣٠:٣ )
٣ - یہودیوں کی عبادت گاہ۔
"ایک منزل میں پہونچے کہ وہاں ایک عبادت خانہ مدسائیوں کا تھا کہ اوسے دیر کہتے ہیں۔"    ( ١٧٣٢ء، کربل کتھا، ٢٤٧ )
٤ - پارسیوں اور زرتشتیوں کی عبادت گاہ، آتش کدہ۔
 کہاں ہے دَیر کہ پوچھوں مغاں سے چارۂ کار ہے پھر گھمنڈ طبیعت میں پارسائی کا    ( ١٧٩٥ء، قائم، دیوان، ٢٥ )
٥ - [ مجازا ] دنیا جو اللہ تک رسائی میں حائل ہے۔
 وہ صنم جب دیر سے نکلا تو اے معروف ہائے حاضر اُس جا اور سب خلق خدا تھی میں نہ تھا    ( ١٨٢٦ء، معروف، دیوان، ٤٠ )
٦ - بت کدہ، شوالہ، مندر؛ (مجازاً) ایسی جگہ جہاں فقر و فنا کی تعلیم دی جائے، عبادت گاہ۔
 مزا تو جب ہے کہ خالی رہے نہ خلوتِ شب غزال دیر اٹھے ہوئے حرم آئے    ( ١٩٦٨ء، غزال و غزل، ٦٩ )