پراکرت زبان سے اردو میں داخل ہوا اور عربی رسم الخط میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٠٣ء کو "شرحِ تمہیداتِ ہمدانی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔
١ - وہ سیدھی نوکدار لکڑی، بلی یا کسی دھات کی سلاخ جسے زمین میں گاڑ کر گنہ گار یا مجرم کو اُس پر بٹھا دیا جائے تو وہ آہستہ آہستہ اس کے جسم میں گھستی چلی جائے اور وہ تڑپ تڑپ کر جان دیدے۔
"کیا تم کو معلوم نہیں ہے کہ چوروں کو سولی کی سزا دی جاتی ہے۔"
( ١٨٨٦ء، درگیش نندنی، ٨٥ )
٢ - [ مجازا ] وہ بلی جس میں رسی کا پھندا پڑا ہو اور مجرموں کو اُس پر لٹکایا جائے، پھانسی، دار۔
"حجاج نے اس کی لاش سولی پر لٹکا دی۔"
( ١٩١٤ء، شبلی، مقالات، ٣:٥ )
٣ - پھانسی کا پھندا، وہ رسی جس سے پھانسی دی جائے۔
"اب یہاں دم نہ لو، دشمن سولی اور ہتھکڑی لیے ہوئے پیچھے آرہے ہیں۔"
( ١٩٠٩ء، خوبصورت بلا، ٩٥ )