دار

( دار )
{ دار }
( اوستائی )

تفصیلات


دَوْرُ  دار

اوستائی زبان کے لفظ 'دَوْرُ' سے فارسی میں ماخوذ 'دار' اردو میں اصل صورت و مفہوم کے ساتھ داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے سب سے پہلے ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : درایں [دا + ریں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : داروں [دا + روں (و مجہول)]
١ - وہ لمبی لکڑی جسے زمین میں گاڑ کر اور اُس کے سِرے پر حلقہ باندھ کر مجرم کو پھانسی دیتے ہیں، پھانسی، سُولی۔
 جھومتے ہیں تہِ شاخ دار اے چمن لے ترے نونہالوں کو نیند آ گئی      ( ١٩٥٨ء، تارِ پیراہن، ١١٥ )
٢ - سولی کی سزا، سزائے موت؛ سخت سزا۔
 دار سے بھی گزر کے دیکھ لیا طے محبت کی رہ گزر نہ ہوئی      ( ١٩٧٩ء، زخمِ ہنر، ١٨٩ )
٣ - لکڑی، لکڑی کا ٹکڑا۔
 دونوں ہات اس کے درخت چنار دونوں پانو ہور رانِ مانندِ دار      ( ١٦٤٩ء، خاور نامہ، ٢٢٧ )
٤ - درخت، یپڑ۔
"پرانی فارسی میں دار درخت کو کہتے ہیں۔"      ( ١٩٢٦ء، خزائن الادویہ، ٩٦:٤ )
٥ - ایک نوکدار جنگلی ہتھیار۔
"سعد نے دیکھا کہ ایک عنقریب خونخوار آہن کا دار کاندھے پر رکھے ہوئے سامنے آیا اور دار کا وار کیا۔"      ( ١٩٠٢ء، طلسمِ نوخیز جمشیدی، ١٧٣:٣ )