پھانسی

( پھانْسی )
{ پھاں + سی }
( سنسکرت )

تفصیلات


پاش+ین  پھانْسی

سنسکرت میں اسم 'پاش + ین' سے اردو میں ماخوذ 'پھانسی' بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٠١ء کو "آرائش محفل" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : پھانْسِیاں [پھاں + سِیاں]
جمع غیر ندائی   : پھانْسِیوں [پھاں + سِیوں (و مجہول)]
١ - رسی یا ریشم کا پھندا جس سے گلا گھونٹا جا سکے، وہ پھندا جو دو اونچے ستون گاڑ کر لٹکایا جاتا اور جسے گلے میں ڈال کر مجرموں کو سزائے موت دی جاتی ہے۔
 مجھے تم جیل بھیجو یا مجھے پھانسی پہ لٹکاؤ حقیقت ہے کہ عاشق ہوں تمہاری زلفِ پیماں کا      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٦١ )
٢ - [ مجازا ]  موت کی سزا (جو رسی کے پھندے کے ذریعے سے دی جاتی ہے)۔
"سوائے . قید اور جلاوطنی اور پھانسی وغیرہ کے اور کوئی تدبیر نہیں ہو سکتی۔"      ( ١٨٨٠ء، ماسٹر رام چندر، ١٢٠ )
٣ - پھندا، جال۔
 نہ ہو گر ہتکڑی بیڑی تمھیں، پھانسی تو ہے احمق جو سر رکھتے ہیں ان کو رنج کیا ہے دست و پائی کا    ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٣٨ )
٤ - کوئی تنگ حلقہ یا گھیرا جو گلے کے گرد ہو۔
 دھجیاں کر کے اڑا دے اسے اور دست جنوں تنگ پھانسی سے بھی کرتا ہے گریباں مجھ کو    ( ١٨٤٣ء، دیوانِ رند، ١١١:٢ )
٥ - فن بنوٹ کے ایک دانو کا نام جس میں حریف کی گردن کو ہاتھ کے خم (کہنی) میں لے کر دبوچ لیا جاتا ہے۔
"بائیں طرف کے تیرہ پیچ یہ ہیں چورنگا . پھانسی . ہتکوڑا۔"    ( ١٩٧٣ء، عقل و شعور، ٤٣٦ )
  • hanging till death
  • capital punishment
  • strangulation
  • execution