اسقاط

( اِسْقاط )
{ اِس + قاط }
( عربی )

تفصیلات


سقط  اِسْقاط

عربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مزید فیہ کے باب افعال سے مصدر ہے اور اردو میں حاصل مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٦٧ء کو "نورالہدایہ (ترجمہ)" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - عدم استقرار، برقرار نہ رکھنا یا باقی نہ رہنا، ساقط کرنا یا ہونا، حذف کرنا یا کیا جانا، ہٹانا یا ہٹایا جانا، نظرانداز یا معاف کرنا یا ہونا۔
"زوائد کے حذف و اسقاط کے بعد ان کی اشاعت ہم پر فرض ہے۔"      ( ١٩٢٥ء، اودھ پنچ، لکھنو، ١٠، ٢، ٥ )
٢ - (حمل کا) گرنا یا گرانا
"چھمی جان کے جانے کے ساتویں دن میرے ہاں اسقاط ہوا۔"      ( ١٩٥٦ء، ہمارا گاؤں، ١٤٤ )
٣ - [ فقہ ]  وہ رقم جو فقرا و مساکین کو میت کے فرائض و واجبات کے عوض وارثوں کی طرف سے دی جائے۔ فدیہ۔
٤ - [ شعر ]  تقطیع میں کوئی حرف دبا کر پڑھا جانا، کسی حرف کو دبا کر یا گرا کر وزن پورا کرنا۔
"سیہ بختی میں یاے تحتانی کا اسقاط نہ چاہیے۔"      ( ١٩٠٠ء، امیر، مکاتیب، ١٥٠ )
٥ - [ اصول حدیث ]  درمیان سلسلۂ رواہ سے ایک یا دو راویوں کا ساقط ہونا، سلسلۂ رواہ منقطع ہونا، تعلیق۔ (مشکواۃ شریف (ترجمہ)، 8:1)
  • causing to fail;  dropping or casting her young (an animal);  miscarrying
  • miscarriage;  procuring an abortion