تصفیہ

( تَصْفِیَہ )
{ تَص + فِیَہ }
( عربی )

تفصیلات


صفا  تَصْفِیَہ

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا اور سب سے پہلے ١٨٧٣ء کو "مکاتیب سرسید" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - (معاملے کی) صفائی، فیصلہ۔
"اس نے آکر نواب صاحب سے شکایت کی کہ معتمد صاحب کچھ تصفیہ نہیں کرتے۔"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٣٧ )
٢ - صلح، سمجھوتا، چکوتا، بے باقی۔
"آپس میں اس بات کا تصفیہ کرلو۔"      ( ١٨٧٦ء، تہذیب الاخلاق، ٨٨:٢ )
٣ - دوا یا زہر وغیرہ کی تدبیر، اصلاح، خشک دوا کو چھان کے صاف اور بے ضرر کر لینے کا عمل۔
 سحق، تکلیس، تصفیہ، تصعید غسل تقطیر، تسقیہ، تجمید      ( ١٨٨٧ء، ساقی نامہ شقشقیہ، ٣٦ )
٤ - قلب کی صفائی، روحانی اعتبار سے قلب کو کدورت وغیرہ سے پاک کرنا، صفائے باطن، دل کو غیر حق اور اپنی خودی سے پاک کرنا اور بجز حق کے کسی کو اپنے دل میں جگہ نہ دینا۔
"ہر تڑپ اور ہر کسک تصفیے کا کام کرتی ہے۔"      ( ١٩١٦ء، سوانح خواجہ معین الدین چشتی، ١٩٠ )
٥ - صاف کرنا، صفائی۔
"اس میں بعض اوقات بیس فیصد تک ٹن ہوتا ہے اس لیے اس کو جمع کر کے دھات کو نکالنے کی غرض سے اس کا دوباہ تصفیہ کیا جاتا ہے۔"      ( ١٩٤١ء، فلزیات، ٤٥٨ )
٦ - [ فلزیات ]  دھاتوں کو صاف کرنے کا عمل (سونا، چاندی اور لوہا آگ میں سرخ کر کے بجھانے سے صاف ہو جاتے ہیں اور جست، شیشہ، رانگ وغیرہ چرخ دے کر ڈھالنے سے)؛ کچ دھاتوں کو پگھلا کر دھات علیحدہ کرنے کا عمل۔
"اس کی کچ دھات کے تصفیہ سے ٢٦ فیصد سے زیادہ لوہا حاصل نہیں ہوتا۔"      ( ١٩٤٨ء، اشیائے تعمیر، ١٠٩ )
  • clearing
  • making clear;  clearance;  purifying (particularly the mind from ill-will);  purification
  • purgation;  purity;  reconciliation;  settlement
  • adjustment
  • disposal (of a case)