تردد

( تَرَدُّد )
{ تَرَد + دُد }
( عربی )

تفصیلات


ردد  تَرَدُّد

عربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مزیدفیہ کے باب تفعل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٢٥ء کو "سیف الملوک و بدیع الجمال" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - پس و پیش، تذبذب، تامل شک و شبہ، ہچکچاہٹ۔
"وہ مشکل سے مشکل کام بغیر تذبذب اور تردد کے فوراً کر بیٹھتے تھے۔"      ( ١٩٣٨ء، حالات سرسید، ١١٠ )
٢ - فکر، اندیشہ، پریشانی۔
"شب و روز تردد و انتشار میں گزرتے ہیں۔"      ( ١٩١٧ء، گلستان باختر، ٧٤٧:٣ )
٣ - جدوجہد، سعی، کوشش۔
"بے چارہ بڑی کوشش و تردد کے ساتھ مہمان کے واسطے گوشت لایا۔"      ( ١٩٣٩ء، حکایات رومی، ٤٠:٢ )
٤ - اندیشہ، خوف، ڈر۔
"نہایت تردد اور تفحص کے لہجے میں پونچھتا ہے کہ مرنے کے بعد کہاں جانا ہو گا۔"      ( ١٩٠٧ء، شعرالحجم، ٢٤٧:١ )
٥ - شک و شبہ۔
"ایمان اس یقین جازم کا نام ہے جس میں تردد اور شک نہ ہو۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ، ٨٣:٣ )
٦ - زراعت، کاشتکاری، کھیتی باڑی کا انتظام و بندوست، زمین کی دیکھ بھال۔
"زمیندار چھوٹی چھوٹی جائیداد رکھتے ہیں اور ان جائیدادوں کا تردد یا تو بذات خود کرتے ہیں یا آسامیوں سے کراتے ہیں۔"      ( ١٨٦٨ء، سیاست مدن، ١٤٨ )
٧ - انکار، رد۔ (جامع اللغات)
  • فِکْر گَھْبراہَٹ
  • مُشَقَّت
  • wavering
  • vacillation
  • fluctuation (of opinion)
  • hesitation
  • indecision
  • irresolution
  • suspension of judgement;  perplexity
  • anxious consideration
  • anxiety
  • trouble (of mind);  refusal
  • rejection;  debating;  application
  • labour
  • exertion
  • endeavour
  • contrivance;  cultivation
  • improvement