سوچ

( سوچ )
{ سوچ (و مجہول) }
( پراکرت )

تفصیلات


پراکرت سے اردو میں ماخوذ ہے اور عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٩٥ء کو "دیوانِ قائم" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
جمع   : سوچیں [سو (و مجہول) + چیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : سوچوں [سو (و مجہول) + چوں (و مجہول)]
١ - غور و خوض، معاملے کے مختلف پہلوؤں یا نتائج پر گہری نظر ڈالنے کی صلاحیت، فکر۔
"ہاتھوں سے دامن چھوٹ کر زمین پر آگیا اور وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔"      ( ١٩٨١ء، قطب نما، ٢٤ )
٢ - حُزن، ملال، افسوس یا تعجب وغیرہ کے ساتھ کسی بات کا دھیان، فکر۔
 بے جان کو سوچ جی میں چھپ کے گھُن دانے کو کھائے چپکے چپکے      ( ١٨٨٧ء ترانۂ شوق، ١٣١ )
٣ - تردّد، تامل، تذبذب۔
"اس سوچ میں تھا کہ اس ناگوار ذکر کو کس طرح چھیڑوں۔"      ( ١٩٣٥ء، چند ہمعصر، ٢٦٣ )
٤ - ہمہ وقت دھیان، تصور، دُھن، خیال۔
"وہ طوائف زادی کراچی شفٹ ہو رہی ہے اور آپ جناب ہجرت کرنے کی سوچ میں ہیں۔"      ( ١٩٦٩ء دیوار کے پیچھے، ٢١٩ )
٥ - تخیل، سمجھا بُوجھا، خیال (جو غور و فکر کا نتیجہ ہو)۔
"اس پادشاہ نے اس سوچ سے وہاں بودو باش اختیار کی تاکہ اپنے وطن سے قریب رہے۔"      ( ١٨٤٨ء، تاریخِ ممالکِ چین (ترجمہ)، ١١:١ )
٦ - وہ رُخ جس سے کسی بات کو سوچا سمجھا جائے، طریقِ فکر، اندازِ خیال۔
"وہ ایک نئی سوچ میرے ذہن میں چھوڑ گیا ہے۔"      ( ١٩٦٩ء، دیوار کے پیچھے، ٢٢٠ )
  • thought
  • reflection
  • consideration
  • meditation;  reverie
  • musing;  imagination;  idea;  attention
  • regard
  • notice;  seriousness;  anxiety
  • concerns
  • apprehension
  • perplexity;  sorrow
  • grief;  regret
  • penitence.