دھارا

( دھارا )
{ دھا + را }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت سے اردو میں ماخوذ ہے اور عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧١٨ء کو "دیوانِ آبرو" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : دھارے [دھا + رے]
جمع   : دھارے [دھا + رے]
جمع غیر ندائی   : دھاروں [دھا + روں (و مجہول)]
١ - (دریا کا) بہاؤ، رو، چشمہ، سوتا۔
"ترجموں کا دھارا ہمارے ادب کی کھیتیوں کی کس کس طرح سیراب کرتا رہا ہے۔"      ( ١٩٨٥ء، ترجمہ: روایت اور فن، ٦٨ )
٢ - سلسلہ، قطار۔
 تماشا انجھواں کا کہ نچویوں کا دھارا ہے ہمارا رونا پیارے یہ اندر کا اکھاڑا ہے      ( ١٧١٨ء، دیوانِ آبرو، ٧٧ )
٣ - سلسلۂ کوہ؛ پہاڑ کی چوٹی۔ (فرہنگِ آصفیہ)۔
٤ - [ گاڑی بانی ]  بیلی یا اکّے کے پچھوتئیے پر جڑے ہوئے چوبی ڈنڈے جن سے پچھلا کھلا حصہ ڈھک جاتا ہے۔ (اصطلاحاتِ پیشہ وراں، 131:5)
٥ - (کسی چیز کا) کفارا، حاشیہ؛ (پہیے کا گھیرا یا محیط؛ دھار، باڑھ؛ مجمع، جمگھٹ؛ (بارش کی بوچھاڑ؛ قطرہ (پلیٹس)۔
٦ - ترازو کی ڈنڈی کا درمیانی بند جس کو پکڑ کر تولا جاتا ہے۔ (قاموس الفصاحت، 219)۔
  • A line of descending fluid
  • a stream
  • current (of water
  • or of a river)
  • a channel
  • a watercourse;  a torrent;  a flood;  a hard shower (of rain);  a drop;  margin or border (of anything);  circumference or periphery (of a wheel);  sharp edge (of any tool or weapon);  a multitude