رو

( رَو )
{ رَو (و لین) }
( فارسی )

تفصیلات


رَفْتَن  رَو

فارسی زبان میں رفتن مصدر سے حاصل مصدر ہے اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ داخل ہوا اور سب سے پہلے ١٧٥٥ء میں "دیوانِ یقین" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - پانی کا دھارا، بہاؤ۔
 نہ پرنالے چلے اب کے دھڑا دھڑ نہ گزری کی سڑک رَو نے بہائی      ( ١٩١١ء، کلیات اسمٰعیل، ١٩٩ )
٢ - بارش، بوچھاڑ۔
"ان پر تیروں کی ایسی رو برسائی کہ بھاگتے ہی بنی۔"      ( ١٨٩٩ء، رُویائے صادقہ، ١٥٦ )
٣ - سیلاب، طوفان۔
"اسی سال میں ایک بڑی رو درمیان دمشق کے عشرۂ اول شعبان میں آئی تھی۔"      ( ١٨٤٧ء، تاریخ ابوالفدا (ترجمہ)، ٦٤٥:٢ )
٤ - [ مجازا ]  خیالات کا بہاؤ، دُھن، خیال۔
"قدر نواز جنگ اپنی رو میں بولتے رہے۔"      ( ١٩٨٧ء، اک محشرِ خیال، ١٤١ )
٥ - تہذیب، تعلیم، (دستور یا خیالات وغیرہ کا) بہاؤ، دھارا، روش۔
"ان حالات کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے ہندوستانی طلبہ کے ذہنوں میں نئے شعور کی رو نے جذبات کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔"      ( ١٩٨٨ء، جنگ کراچی، ١٥ / اپریل، ١٤ )
٦ - شدید جذبات کا بہاؤ، جوش، غصہ وغیرہ۔
"مسلمان حامی بن گئے تھے . دو چمکتے ہوئے ستارے اِس رجحان کی متضاد رو کے ترجمان بنے۔"      ( ١٩٨٢ء، آتشِ چنار، ٨٢٠ )
٧ - دوڑ، رفتار، گردش۔
 ایک ہی رو میں ہیں رواں ہم تم دیکھئے کس کی چال کس کا چلن      ( ١٩٥٨ء، تارِ پیراہن، ١٩ )
٨ - بجلی یا حرارت وغیرہ کی لہر۔
"جدید انسان ان کے (فہیم اعظمی) یہاں افسانے کے ماحول میں . کھمبوں پر کھنچے ہوئے تاروں میں دوڑتی ہوئی . برقی رو کی مانند ہے۔"      ( ١٩٨٧ء، حصار، ١٢ )
٩ - ہوا وغیرہ کا جھونکا، زد (مجازاً بھی مستعمل ہے)۔
 یہ وہ آندھی ہے جس کی رو میں مفلس کا نشیمن ہے یہ وہ بجلی ہے جس کی زد میں ہر دہقاں کا خِرمن ہے      ( ١٩٥٥ء، مجاز، آہنگ، ٩٤ )
١٠ - بھیڑ، انبوہ، آدمیوں کا مجموعہ، ریلا۔ (مہذب اللغات)
١١ - مرکبات میں جزوِ آخر بعنی لاحقہ کے طور پر مستعمل ہے۔ گرم رو، .... راہ رو، سلامت رو .... کم رو۔ (1921ء، وضع اصطلاحات، 93)
  • Current
  • stream
  • torrent;  line
  • train;  host
  • swarm;  vehemence
  • passion